Wednesday, 11 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Seh Fareeqi Muzakrat Ke Asraat

    Seh Fareeqi Muzakrat Ke Asraat

    عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی نگہبانی اتحادی ممالک سے کراتی ہیں، اِس تناظر میں سات عشروں تک امریکہ کے لیے پاکستان جبکہ روس کے لیے بھارت نے کام کیا لیکن اب حالات کروٹ لے چکے ہیں روس اتحادی ممالک کو اسلحہ و تیل تو فراہم کرتا ہے لیکن کمزور معیشت کی بناپر مالی تعاون کے قابل نہیں رہا جبکہ امریکی پالیسی اب یہ ہے کہ مہنگا اسلحہ فروخت کرو اور بھاری سرمایہ کاری بھی حاصل کرو جس نے نئی عالمی تقسیم کو جنم دیا ہے۔

    جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک نے بھی اپنے نئے سرپرستوں کا انتخاب کر لیا ہے اب امریکہ کے لیے بھارت اہم ہے جبکہ چینی سرپرستی پاکستان کو حاصل ہے۔ رواں ماہ چھ سے دس مئی تک جاری رہنے والی پاک بھارت جھڑپوں نے امریکہ کوکسی حد تک احساس دلایا ہے کہ اُس نے پاکستانی رفاقت کو چھوڑ کر غلط کیا ہے اور وہ تجارتی معاہدوں سے تلافی کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے اشارے دینا شروع کر دیے ہیں کہ وہ پاکستان سے ایک بڑا تجارتی معاہدہ کرنے جارہی ہے، بظاہر یہ انعام بھارت سے سیز فائر کا مطالبہ تسلیم کرنے کا صلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو دفاعی حوالے سے کچھ ایسے نئے روزن دکھائے ہیں جس سے ازسرے نو صف بندی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔

    گھنٹوں پر محیط پاک بھارت جھڑپوں نے پہلا جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی طاقت چین جنگی تیاریوں کے حوالے سے اتنا آگے ہے جس کا توڑ دنیا کے شہ دماغوں کوتلاش کرنا ہوگا۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ خطے میں امریکی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے بھارت ناکافی ہے۔ تیسرا سبق یہ ہے جنگ بندی کی امریکی تجویز کو فوری طور پر قبول کرنے کے باوجود پاکستان چینی سرپرستی صدقِ دل سے قبول کر چکا ہے۔

    دراصل امریکہ ضرورت کے وقت پاکستان سے کام تو لیتا ہے لیکن مطلب پورا ہوتے ہی رویہ بدل لیتا ہے۔ ایف سولہ دیتے وقت یہ شرط عائد رکھنا کہ کسی پر حملہ کرتے ہوئے انھیں استعمال نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے بہت ہی نامناسب ہے۔ یہ شرط دوستانہ منافقت کی عکاس ہے کیونکہ اِس شرط کا مطلب تو یہ ہے کہ بھارت پر حملے کے دوران پاکستان ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کر ے گا۔ ابتدا میں کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے پاکستان نے شرط قبول کر لی پاکستان شرط پر قائم رہتا ہے یا نہیں؟

    جائزہ لینے اور پاکستان کو شرط کا پابند رکھنے کے لیے جب امریکہ نے باقاعدہ طریقہ کار بنایا تو پاکستانی قیادت نے اردگرد متبادل تلاش کرنا شروع کردیا کیونکہ بھارت کو دفاعی ہتھیار دیتے وقت امریکہ نے کبھی کوئی شرائط نہیں رکھیں۔ سوویت یونین کے خلاف پاکستان سے کام لیا گیا مگر اُس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد بھی پاکستان کو ایسے ہی رویے کا سامنا کرنا پڑا لیکن چین اپنی ضرورتوں کے لیے پاکستان کو تمام تر مجبوریوں کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ دراصل دونوں کا دشمن ایک ہے جو دونوں کا ہمسایہ ہے اسی لیے دونوں ملک اب ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔

    جموں کشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست پر بھارتی قبضے کو آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن کشمیریوں کو حقِ خوداِرادیت نہیں دیا جا رہا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں۔ کشمیریوں کی خلاقی اور سفارتی مدد تو پاکستان کرتا ہے لیکن جارحیت پر یقین نہیں رکھتا یہ پاکستان کی امن پسندی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ کئی عشروں کی خدمات کے باوجود امریکہ نے اِس حوالے سے کبھی پاکستان کی مدد نہیں کی بلکہ علاقائی بالادستی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ بھارت کی مدد کی ہے حالانکہ اُس کے کسی ہمسایہ ملک سے اچھے مراسم نہیں۔

    بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ تک میں فوجی کاروائیاں کرچکا ہے چین سے بھی شدید نوعیت کے سرحدی مسائل ہیں۔ دونوں ہی لداخ اور اروناچل پردیش پر حقِ ملکیت کے دعویدار ہیں بھارتی رویے سے تنگ آکرہی چین نے پاکستان کی سرپرستی شروع کی ہے۔ وہ باسٹھ ارب ڈالر سے سی پیک کی تعمیر پر کام کرنے کے ساتھ پاکستان کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی دے رہا ہے۔ پاکستان نے جے 10سی اور جے ایف تھنڈر17 کے زریعے مشروط ایف سولہ کا حل تلاش کرلیا ہے اب چین پانچویں جنریشن کے جے35 اے لڑاکا طیارے بھی رعایتی قیمت پر دینے پر آمادہ ہے جس سے پاکستان بھارتی حملوں کو ناکام بنانے کے ساتھ حملہ کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

    پاک چین قیادت دوستی کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے پر متفق ہے پاکستان کو دفاعی حوالے سے مضبوط کرنے میں چینی مفاد یہ ہے کہ مقابلے کا دعویدار بھارت اب صرف پاکستان کے ساتھ ہی مصروف رہے گا جو امریکی مفاد سے متصادم ہے۔ امریکہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان دفاعی حوالے سے کبھی اتنا طاقتور نہ ہوکہ بھارت کو چیلنج کر سکے۔ پاکستان بظاہر طویل ترین رفاقت کو خیر باد تو نہیں کہہ رہا البتہ دفاعی مفاد کے تناظر میں امریکہ پر چین کو فوقیت دے چکا ہے۔

    رواں ماہ کی محدود جھڑپوں نے بھارتی بالادستی کاخواب تو توڑا ہے ہی پاکستان اور چین کو بھی مزید قریب کردیا ہے۔ عین پاک بھارت کشیدگی کے ایام میں چین نے خطے پر نظر رکھی اور تبدیلی پر کچھ اِس طرح کام کیا کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر خطرات کے منڈلاتے بادل ہٹا دیے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندے محمد صادق اور چینی سفیر نے اچانک کابل جا کر طالبان کو رضا مند کر لیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کوئی مُہم جوئی نہیں کریں گے اِس اچھی سہولتکاری سے پاکستان مشرقی سرحد پر بہتر توجہ دینے کے قابل ہوگیا اور چند گھنٹوں پر محیط ایک ہی حملے میں بھارت کے چھبیس سے زائد عسکری مقامات تہس نہس کردیے۔

    رواں ہفتے ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، چینی وزیرِ خارجہ وانگ ڑی اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی بیجنگ میں ملاقات ہوئی ہے۔ اِس سہ فریقی ملاقات میں جہاں علاقائی مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں معاشی تعاون بڑھانے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ بظاہر اسحاق ڈار بھارت سے جنگ میں مدد پر چین کا شکریہ ادا کرنے بیجنگ گئے ہیں مگر یہ مستقبل کے سٹریٹجک تعلقات کے فروغ کے ساتھ معاشی تعاون کو وسعت دینے کے امکانات کو اُجاگر کرتی ہے کیونکہ تینوں متفق ہوچکے کہ علاقائی امن اور معاشی رابطہ کاری کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہے جو پاک افغان موجودہ تعلقات کی نوعیت کے تناظر میں کافی اہم ہے۔

    سہ فریقی بات چیت سے نہ صرف افغانستان میں ترقی کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ایک دوسرے پر انحصار میں بھی اضافہ گا جس سے نہ صرف خطے میں دہشت گردی جیسے ناسور کا خاتمہ کرنا ممکن ہوگا بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائرپورٹ کو تحویل میں لینے کا امریکی منصوبہ بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

    (مزید آئندہ سطور میں)