کئی ممالک کو دفاعی حوالے سے پریشان کُن صورتحال کا سامنا ہے جن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے، البتہ پاکستان، ترکیہ اور ایران تین ایسے مسلم ممالک ہیں جو دفاعی طور پر مضبوط خیال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ ہتھیار خریدنے کے ساتھ خود بھی تیار کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری طاقت ہے اور طیارہ سازی سے لیکر میزائل، ٹینک اور دیگر جدید ترین ہتھیار بنا رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب عالمی طاقتیں اپنی شرائط پر منہ مانگی قیمت پر دفاعی ہتھیار فروخت کرتیں اور حکم عدولی کی صورت میں پابندیاں عائد کرتی ہیں ایسے میں پاکستان مسلم دنیا کے لیے اُمید کی کرن ہے۔
اِس بات کا چین کو بھی ادراک ہے فی الوقت مسلم دنیا کا وزن امریکی پلڑے میں ضرور ہے البتہ متبادل کی خواہش موجود ہے۔ چینی معیشت پُرکشش تو تھی ہی اُس کی ہتھیار سازی کی صنعت بھی دنیا کی توجہ حاصل کرنے لگی ہے۔ اِس میں کسی حد تک مئی کی پاک بھارت جھڑپوں کا بھی کردار ہے۔ اِس دوران مغربی ٹیکنالوجی پر چینی ٹیکنالوجی کو برتری حاصل ہوئی اکثر ماہرین کا اِس خیال سے اِتفاق ہے کہ معاشی کے بعد چین اب دنیا کو اپنی دفاعی مضبوطی باور کرانا چاہتا تھا۔
یہ مشکل پاک بھارت کشیدگی نے آسان کردی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ چینی جارحانہ رویے پر بھارت ہربار خاموشی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو کمزور ہدف خیال کرتے ہوئے زک پہنچانے کی کوشش کرتا۔ چین تنازعات سے الگ رہنے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر نظر ثانی کر چکا ہے ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کرانے کے بعد پاک افغان قیادت کی تلخیاں ختم کرانا معمولی کام نہیں۔ چین اِس طرح دنیا کو احساس دلا رہا ہے کہ وہ حریف ممالک کو حلیف بنانے پر قادر ہے۔ بیجنگ کے حالیہ سہ فریقی مزاکرات نے خطے میں بڑی تبدیلی کی وہ بنیاد رکھ دی ہے جوچینی بلاک کی تشکیل کاسنگِ بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔
ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن خبردار کرچکے کہ عالمی طاقت کا توازن ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ چین، پاکستان اور انڈونیشیا مستقبل کی بڑی طاقتیں ہوں گی لیکن امریکی قیادت شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہے یا پھر جان بوجھ کر ایسا تاثر دے رہی ہے کہ عالمی تبدیلیوں کی اُسے کوئی پرواہ نہیں۔ نیز موجودہ امریکہ گاجر اور چھڑی کی پالیسی پر بھی نظرثانی کر چکا ہے حالانکہ ماضی میں اسی پالیسی سے فوائد حاصل کرتا رہا ہے۔ اب چھڑی پر اکتفا کرتے ہوئے تاجرانہ ذہنیت سے امیر ممالک کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے لگا ہے۔ مال کی فروخت میں بھی دباؤ سے کام لیتا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سے ڈھیروں معاہدے دباؤ کا ہی نتیجہ ہیں مگر چین پہلے ضرورت کا اندازہ لگاتا اور پھر مال فراہم کرتے ہوئے نرمی اور فیاضی سے کام لیتا ہے۔ رواں ماہ مئی کی جھڑپوں میں پاکستان کا ساتھ دیکر بھارت پر واضح کر چکا کہ تم تو پاکستان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو لہذا ہمارے مقابلے کا سوچنا بھی مت۔
چین کا خیال ہے کہ امریکہ مخالف بلاک واضح کرنے کا وقت آ چکا روس اور ایران کا تو پہلے ہی امریکہ مخالف ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ پاک افغان بڑھتی تلخیاں چینی مفاد کے منافی تھیں جو اُس کی تجارتی راہداریوں کی تعمیر جیسے منصوبوں کو متاثر کر سکتی تھیں۔ اسی لیے افغان وزیرِ خارجہ امیر خاں متقی کے آمد کے ساتھ پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی آمد یقینی بنائی تاکہ دونوں ممالک باہمی تحفظات دور کر لیں۔ سہ فریقی مزاکرات سے قبل طالبان قیادت کا ٹی ٹی پی کے حوالے سے رویہ نرم تھا لیکن اب کچھ تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کے خلاف مصروفِ عمل تنظیموں اور گروہوں کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے۔ اِس کاوش سے خطے میں امن کی فضا بہتر ہوگی اور سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ ملے گا۔ آج بھی افغانستان میں قبائلی تقسیم ہے چین اور پاکستان کے تعاون سے طالبان پورے ملک کا کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو مضبوط اور خوشحال افغانستان کی منزل آسان ہوگی جس سے افغانوں کو غربت وافلاس سے چھٹکارہ ملے گا۔
سہ فریقی مزاکرات کے اثرات کا ہمہ گیر جائزہ مضمون کی طوالت کا باعث بن سکتا ہے۔ المختصر یہ دنیا میں طاقت کے نئے مراکز کی طرف اشارہ ہے۔ امریکی ناروا شرائط اور اسرائیلی فوجی کاروائیوں سے تنگ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں یہ سوچ نمو پا سکتی ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے تعاون سے زیادہ بہتر انداز میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چینی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی جرات و مہارت نے دفاعی حوالے سے پریشان ممالک کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی وساطت سے اب چین زیادہ بہتر طریقے سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو گرویدہ بنا سکتا ہے۔ پاک افغان دوستی سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی آسان ہونے کے ساتھ دور دراز ممالک تک چینی سامان کی بہتر ترسیل ہوسکے گی، نیز پاک افغان قیادت چینی مفاد کی بہتر نگہبان ثابت ہو سکتی ہیں۔
چین کا پاکستان کی آزادی و خود مختاری کے خلاف کسی اقدام کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان معنی خیز ہے۔ یہ پاک چین یکجائی کا عکاس ہے۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستان کو بھارت کے سوا کسی اور ملک سے خطرہ نہیں مگر اِس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان اپنی آزادی و خود مختاری کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں کا اسی کی سر زمین پر جا کر جواب دینا اور ایران کی طرف سے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دلیرانہ جوابی کاروائی اِس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔
بھارتی طیاروں کو مارگرانے اور پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری میں بھی یہی پیغام ہے۔ حالیہ پاک بھارت محدود جھڑپوں کے دوران چینی تکنیک سے چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کرنے میں مدد ملی اب چینی سہولت کاری سے پاک افغان قیادت اپنے اختلافی امور ختم کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ بیجنگ کے سہ فریقی مزاکرات نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان اب بھارت کا طرفدار نہیں بلکہ چین اور پاکستان کا اتحادی ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔
سہ فریقی مزاکرات سے بھارت کی سفارتی تنہائی اُجاگر ہوئی ہے اور دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ چین اپنے اتحادیوں کے مسائل کو سنجیدہ لیتا ہے، نیز امریکہ کی طرح دنیا کو دھمکا کر مال نہیں بیچتا۔ ایسے حالات میں جب امریکہ اور اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام پر شدید نوعیت کے تحفظات ہیں پاکستانی وزیرِ اعظم کا تہران جانا بہت معنی خیز ہے۔ اِس دورے کو چینی بلاک کی تشکیل میں پاکستانی کوششوں کے طور پر دیکھنا بعید از قیاس نہیں۔