ایشیا جیسا گنجان آباد خطہ چار جوہری طاقتوں کی وجہ سے بارود کے ڈھیر پر ہے۔ چاروں جوہری طاقتوں روس، چین، بھارت کو ہمسایہ ممالک کہہ سکتے ہیں۔ دنیا میں اور کوئی ایسا براعظم نہیں جہاں اکٹھی چار جوہری طاقتیں ہوں۔ اِس حساسیت کا تقاضا ہے کہ جو باہمی مسائل کا حل مذاکرات کے زریعے تلاش کیا جائے لیکن اِس میں بھارت کا جارحانہ رویہ رکاوٹ ہے۔ اُس نے پُرامن بقائے باہمی کی بجائے مسائل حل کرنے سے اجتناب کیا ہے اسی وجہ سے تقسیم ہند سے لیکر ہنوز مسائل برقرار ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی تیاریوں پرصرف ہو جاتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بار بار تناؤ کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔
افسوس عالمی طاقتوں نے بھی تناؤ میں کمی لانے کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔ جب سے چین کی معاشی ترقی نے طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا ہے تو چین سمیت اُس کے اتحادیوں کو خطرات میں دھکیلا جانے لگا ہے۔ بھارت جیسا سازشی اور مکار ملک پیداشدہ حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے عالمی طاقتوں کا خطے میں نیا مُہرہ ہے جس سے جنوبی ایشیا کی دو ارب آبادی کے لیے خطرات میں اضافہ اور ترقی کی راہیں مسدود ہورہی ہیں۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا جیسے خطے کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ تمام شہریوں کے لیے ترقی کے مواقع یکساں نہیں دے پا رہا امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اگر سارک ممالک اپنے اختلافات کو جنگوں کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کریں تو دفاعی تیاریوں پر اُٹھنے والے اربوں کے اخراجات عام آدمی کی بہتری پر صرف ہوں گے، اِس طرح شہریوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔
22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس کی پاکستان نے فوری مذمت کی کیونکہ دہشت گردی انسانی ترقی کی دشمن ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی قیادت کو اگر کوئی شک تھا تو حکومتی سطح پر رابطہ کرتی اور ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مدد طلب کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے بھارتی زرائع ابلاغ نے ایسا تاثر دینا شروع کر دیا کہ اِس میں پاکستان ملوث ہے۔ زرائع ابلاغ کی دیکھا دیکھی بھارتی حکومت بھی طفلانہ رویہ اخیتار کرتی گئی اور پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا جب کہ شواہد سے ظاہر تھا کہ پہلگام واقعہ میں بیرونی نہیں اندرونی ہاتھ ہے کیونکہ سرحد سے میلوں دور سیاحتی مقام پر را جیسی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی اور بھارتی سیکورٹی اِداروں کی سہولت کاری کے بغیر نشانہ بنانا تو درکنار پہنچنا بھی ممکن نہ تھا۔
مزید قابلِ ذکر بات یہ کہ دہشت گردی کے صرف دس منٹ بعد ہی مقدمہ درج کرنا ہے حالانکہ اِتنے قلیل وقت میں جائے وقوعہ سے تھانہ پہنچنا ممکن ہی نہیں مگر یہاں دس منٹ میں مدعی تھانہ پہنچ کر درخواست لکھتا ہے اور مقدمہ بھی درج ہوجاتا ہے اسی بنا پر قیاس ہے کہ جو بھی ہوا سب طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا ہے۔ اب حقائق عیاں ہونے کے ڈر سے بھارت مذاکرات اور مشترکہ تحقیقات کی طرف نہیں آرہا اور جنگ کا ماحول بنارہا ہے لیکن اِس طرح دوارب آبادی کی خوشحالی کو داؤپر لگایا جارہا ہے۔
پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کا سامنا ہے وہ تمام دستیاب وسائل سے اِس ناسور کی سرکوبی میں مصروف ہے مگر ٹی ٹی پی سمیت علیحدگی پسند گروپوں کو بھارت کی طرف سے ملنے والی تربیت، ہتھیار اور مالی معاونت سے ہنوز مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو رہا۔ بدنامِ زمانہ بھارتی ایجنسی را کا سابق چیف اجیت ڈوول خود ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا اعتراف کرتا ہے اِس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دار، امن پسند اور باوقار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے تاکہ خطہ جنگ سے محفوظ رہے۔
حال ہی میں جعفر ایکسپریس جیسے خونی واقعے میں درجنوں بے گناہ شہری مارے گئے جس کی تحقیقات میں سیکورٹی اِداروں کے ہاتھ ایسے ٹھوس شواہد لگے جن سے واضح ہوگیا کہ دہشت گردوں نے بیرونی معاونت سے یہ کاروائی کی۔ شواہد کے باوجود پاکستان نے خطے کے امن کو ترجیح دی حالانکہ پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر بھارت جس تصادم کاخواہشمند ہے اُس سے صرف پاکستان نے وہ خود بھی متاثر ہوگا۔
پہلگام دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان مشترکہ بلکہ اقوامِ متحدہ سمیت کسی بھی غیر جانبدار زریعے سے تحقیقات کرانے کی پیشکش کر چکا ہے لیکن بھارت نے ہنوز کسی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا اور جارحانہ موڈ میں ہے۔ اُس پر بری، بحری اور فضائی طاقت کا بھوت سوار ہے حالانکہ ماضی میں کئی بار ثابت ہو چکا کہ عددی قوت پر انحصار کرنے والی طاقتیں راہ فرار پر مجبور ہوئیں۔ روس کا خیال تھا کہ یوکرینی افواج کو چند روز میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور اور ملک پر قبضہ کر لے گا مگر تین برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
بھارت تو روس جتنی فوجی طاقت بھی نہیں رکھتا اور یوکرین و پاکستان کی دفاعی طاقت میں بھی زمین آسمان کا فرق نیز پاکستان جوہری طاقت ہے جس طرح بالاکوٹ فضائی حملے میں بھارت کو ہزیمت سے دوچار کیا 29 اور 30 اپریل کی شب امبالا سے اُڑنے والے چاروں رافیل طیاروں کا بروقت سراغ لگا کر ریڈار جام اور بھاگنے پر مجبور کرنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر بھارتی عوام اور کئی فوجی عہدیدار بھی مودی طرزِ عمل کے ناقد اور جنگ کرنے سے باز رہنے کے مشورے دینے لگے ہیں جس کی پاداش میں اعلٰی فوجی آفیسروں کے تبادلے، تادیبی کاروائیاں اور گرفتاریاں بھی ہوئیں پھر بھی نہ سمجھنے سے ایسا لگتا ہے بڑے سیاسی عہدوں پر چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہیں۔ بھارت کو روس مذاکرات کی ہدایت کرچکا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری انتونیوگوتریس بات چیت میں مدد کی پیشکش کرچکے۔ یورپی ممالک نے بھی بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جواب میں وزیرِ خارجہ جے شنکر کہتے ہیں ہمیں نصیحت نہیں شراکت داروں کی تلاش ہے جسے خطے کو جنگ میں جھونکنے کی دانستہ کوشش کہہ سکتے ہیں۔
ثبوت کے بغیر پاکستان نے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں کیونکہ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں سے مودی کی ملاقاتوں سے ابہام نہیں رہا کہ پاکستان کے مخصوص علاقوں کو نشانہ بنا سکتا ہے مگر حملہ ہوتا ہے تو روایتی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یقینی ہے۔ یوں ہونے والی تباہی دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی۔
پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کی تیاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اِس بار دفاعی اقدامات تک محدود رہنے کی بجائے ہمیشہ کے لیے آبی جارحیت کے امکانات ختم کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ کُن نتائج حاصل کرنے کی تیاری کر چکا ہے۔ اِس حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادت یکسو نظر آتی ہیں لیکن پاک بھارت حکومتوں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی ترقی امن کی بدولت ہے جنگیں انسانی جان کی دشمن ہیں یہ وسائل ہڑپ کرتی ہیں تصفیہ طلب مسائل کا آبرو مندانہ حل صرف مذاکرات سے ممکن ہے جنگ سے نہیں اور معاشی ترقی کے لیے امن ناگزیر ہے۔
(عسکری بریفنگ میں تو میاں شہبازشریف، بلاول بھٹو، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، مولانافضل الرحمٰن سمیت سب غائب تھے، تحریکِ انصاف کی عدم شرکت ہی ہدفِ تنقید کیوں؟ مودی نے تو اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی سے ملنے میں عار نہیں سمجھا تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟ سرحدوں پر تناؤ کے حالات میں وفاقی وزراکی تنخواہ دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ اُنیس ہزار کرنے کے فیصلے سے کیا حملہ رُک جائے گا؟)