پاکستان کا بار بار عالمی مالیاتی اِداروں کے پاس جاتا اور قرض کے عوض کڑی شرائط تسلیم کرنا ایک ایسی سُست قوم کی طرف اِشارہ ہے جسے نہ اپنے حال کی پرواہ ہے اور نہ مستقبل تابناک بنانے کی خواہش ہے۔ حکومت خراب معیشت کو بہتر بنانے کی تگ ودو میں ہے جس کی بدولت جزوی حدتک بہتری کے آثار ہیں۔ اِس میں وفاقی حکومت کے ساتھ مریم نواز کا کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ملک کو خوشحال بنانے کے لیے جہاں تمام دستیاب وسائل سے فائدہ اُٹھانے کی بات کی جاتی ہے وہاں افرادی قوت کو بھی کارآمد بنانے کی ضرورت ہے اب جبکہ برآمدات بڑھانے کے ساتھ افرادی قوت بیرونِ ملک بھجوانے پر توجہ دی جانے لگی ہے۔ ذہن نشین رکھنے والی بات یہ ہے کہ عام تعلیم یافتہ سے زیادہ ہُنر مند افرادی قوت ترسیلاتِ زر لا سکتی ہے۔ رواں برس وزیرِ اعظم شہباز شریف بیلا روس گئے تو ڈیڑھ لاکھ ہُنرمند افرادی قوت بھیجنے کا معاہدہ کر آئے۔ اِس دورے میں مریم نواز بھی ہمراہ تھیں خاتون وزیرِ اعلٰی کو معلوم ہونا چاہیے کہ روایتی تعلیم کا اگر مستقبل روشن ہوتا تو میزبان ملک ہُنرمند کی بجائے محض تعلیم یافتہ افرادی قوت طلب کرتا۔
اب رٹا لگا کر ڈگریاں اکٹھی کرنے کا زمانہ گیا کیونکہ اِس طرح تو ایسے کلرک ہی پیدا ہو سکتے ہیں جن کی کھپت حکومتی محکموں کے سوا کہیں ممکن نہیں لیکن بچت پروگرام کے تحت جس طرح ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے اُس کے نتیجے میں حکومتی محکموں کی ملازمتیں دینے کی استعداد کم ہونے سے بے روزگار کا رُخ نجی اِداروں کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں ڈگری سے زیادہ ہُنر کو ترجیح دی جاتی ہے۔
روایتی طریقہ کارسے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے ڈگریوں کا ڈھیر بہت کم مدد کرتا ہے ہر جگہ ہُنر مند کی نہ صرف مانگ ہے بلکہ وہ روایتی تعلیم سے ڈگریاں لیکر آنے والوں سے زیادہ کما لیتا ہے۔ پنجاب حکومت کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ ہُنر مند افرادی قوت تیار کرنے کے لیے ٹیکنیکل تعلیم کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے مگر ورکر ویلفیئر بورڈ جیسے کچھ ماتحت محکمے ایسے ہیں جن کی ترجیحات وزیرِ اعلٰی کے وژن سے متصادم ہیں جو افرادی قوت کو ہُنر مند بنانے کے منصوبوں کو سبوتاژ کر سکتی ہیں۔
پاکستان ورکر ویلفئر فنڈ اسلام آباد نے 2010 میں میٹرک ٹیک کے نام سے ایک بہترین منصوبہ شروع کیا جس کے لیے بھرتیوں کا اشتہار دیا گیا اور ملک بھر سے میرٹ پرآنے والے کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے۔ اِس طرح چاروں صوبوں میں دسویں تک ہُنر کے ساتھ تعلیم کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ اِس حد تک کامیاب ہوا کہ اِس منصوبے کے تحت تعلیم حاصل کرنے والا ہر بچہ حکومتی اِداروں میں ملازمت نہ ملنے کے باوجود باعزت روزگار حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ یہاں تک کہ وہ طالبات جو خاندانی ماحول کی وجہ سے گھر سے باہر ملازمتیں نہیں کر سکتی تھیں وہ بھی اپنے گھروں میں ہی سلائی، کڑھائی اور بیوٹیشن کے کام سے باعزت کمانے لگیں۔ یہ بنگلہ دیش جیساایسا ماڈل تھا جس سے خواتین کابھی معاشی ترقی میں کرداربڑھ سکتاتھا۔
کچھ ہُنر مند نوجوان تو ملک سے باہر ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اور آج بھی سعودی عرب اور یورپ میں اچھی ملازمتیں ہونے کی وجہ سے پُرکشش تنخواہیں لے رہے ہیں مگر پنجاب میں میٹرک ٹیک منصوبے کی اُس وقت بدقسمتی شروع ہوئی جب 2014 میں اِسے صوبوں کے حوالے کر دیا گیا حالانکہ ملک کے دیگر تین صوبوں خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور سندھ نے افادیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کنٹریکٹ ملازمین کومستقل کردیا لیکن پنجاب میں سوفیصد نتائج دینے کے باوجود یہ منصوبہ ہنوز بدترین مسائل کے بھنور میں ہے۔
2015 میں غیر شفاف بھرتی کا بہانہ بناکر درجنوں ملازمین کو برطرف کر دیا گیا جس پر متاثرین ہائیکورٹ چلے گئے چار برس تک یہ کیس عدالتِ عالیہ کے روبرو زیرِ سماعت رہا آخر کار طویل سماعتوں کے بعد 2019 میں عدالت نے بحالی کا حکم صادر کر دیا اِس طرح منقطع میٹرک ٹیک کا سلسلہ تو ازسرے نو شروع ہوگیا لیکن ملازمین کی بدقسمتی ختم نہ ہوئی۔ پنجاب کی ظالم، بے حس اور سفاک بیوروکریسی نے رکاوٹیں ڈالنے کا عمل جاری رکھا جب عین lHC بورڈ نے ملازمین کو مستقل کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو مال پانی نہ ملنے کے حالات دیکھتے ہوئے کمال چالاکی و ہوشیاری سے پنجاب ورکر ویلفیئر بورڈنے رواں برس گورننگ باڈی سے منصوبہ ختم کرنے کی سفارش کردی اب اپریل سے تمام ملازمین کو دوسری دفعہ کام سے روک دیاگیا ہے۔
سر سے لیکر پاؤں تک بدعنوانی میں دھنسا ورکر ویلفیئر بورڈ پنجاب قبل ازیں بھی کچھ ملازمین کو مختلف الزامات کے تحت برطرف کرچکا اب جن کا میرٹ پر بھرتی ہونا تسلیم کیا اور عدالتی حکم پر بحالی ہوئی اُنھیں بھی ملازمتوں سے فارغ کرنے کے لیے منصوبہ ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ظالمانہ فیصلہ ہے اور یہ سب کچھ ایسی خاتون کی وزارتِ اعلٰی میں ہو رہا ہے جسے سکولوں میں ماں کہاجاتا ہے۔ عظمی بخاری جیسی متحرک خاتون بھی اِس حوالے سے لاعلم ہیں یا بے بس، یقین سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
سچ تو یہ ہے کہ مریم نواز کی ترجیحات اور ہیں جبکہ پیداگیری میں ملوث ماتحت چند محکموں کے سربراہان مخالف سمت چل رہے ہیں۔ یہ سربراہان اچھے منصوبوں کا تیا پانچا کرنا ہی اپنا فرض تصور کرتے ہیں جن میں ورکر ویلفیئر بورڈ پنجاب سرِ فہرست ہے۔ اِس کا سربراہ اور ماتحتوں کی اکثریت رشوت خور ہے، یہ عوضانے کے بغیر تبادلہ تک نہیں کرتے کیونکہ میٹرک ٹیک کے متاثرین کی اکثریت انڈرہینڈ ڈیل نہیں کررہی اسی لیے ایک عشرہ سے زائد ہوچکا مگر مسائل کے بھنور سے نہیں نکل سکے یہ ظلم، بے حسی اور سفاکی ہے کہ ورکر ویلفیئر بورڈ پنجاب کا سیکرٹری توقیر الیاس چیمہ ہائیکورٹ میں مقدمہ خارج کرانے میں معاونت پر تعریفی خط ارسال کرتا ہے حالانکہ اگر وزیرِ اعلٰی مریم نواز کی ترجحات کے مطابق کام کرتا تو ملک کے دیگر تینوں صوبوں کی طرح میٹرک ٹیک کی حوصلہ افزائی کرتا مگر شاید اُس کی ترجیحات مریم نواز کو ناکام کرنا ہے اسی لیے ملک کے مفاد والے منصوبے کو ختم کرانے میں پیش پیش ہے۔
وزیرِ اعلٰی مریم نواز اگر محنتی، خدا ترس اور ملک و ملت کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں تو میٹرک ٹیک پر ظلم ختم کرائیں اُن کے دور میں یہ ناانصافی سمجھ سے بالاتر ہے صوبائی سیکرٹری لیبر محمد نعیم غوث جن کی شہرت ایک دیانتدار، رحم دل اور ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والے کی سی ہے انھی کے ماتحت ورکر ویلفیئر بورڈ ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ وزیرِ اعلٰی اور سیکرٹری لیبر پنجاب اپنے ماتحت ہونے والے اِس ظلم کو روکیں۔ سوال یہ ہے کہ جس منصوبے پر تین صوبے مفتق ہیں تنخواہیں، ترقی اور تبادلوں کا طریقہ کار تک بنا چکے پنجاب میں کیوں ختم کرانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ جس دن مریم نواز اور سیکرٹری لیبرنے اِس سوال کا جواب تلاش کرلیا تونہ صرف میٹرک ٹیک پر جاری ظلم و ستم کا خاتمہ یقینی ہے بلکہ افرادی قوت کو ہُنر مند بناکر بیرونِ ملک بھیجنا آسان اور ترسیلاتِ زر کو بڑھانا بھی ممکن ہوجائے گا۔