صدر ٹرمپ نے تین خلیجی ممالک کے دورے سے امریکہ کے لیے اِتنا کچھ حاصل کرلیا ہے جسے امریکی معیشت کے لیے تازہ خون قرار دیا جاسکتا ہے وگرنہ چین کے گھیراؤ میں الجھے امریکہ کی معیشت عشروں سے زوال پذیرہے اور بحالی کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہورہی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج امریکہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور اگر چینی سرمایہ نکال لیا جائے تو شاید ہی معیشت سنبھل سکے۔ اسی بنا پر تو محصولات بڑھانے کے باوجود چین سے امریکہ افہام و تفہیم کا راستہ بند نہیں کررہا۔
ٹرمپ نے پانچ روزہ خلیجی دورے سے اِتنا کچھ حاصل کرلیا ہے جس سے اِن امیر ممالک کی جمع پونچی کے اہم حصے کی امریکہ منتقلی ہوجائے گا۔ اسلحہ فروخت کے ساتھ تین ٹریلین ڈالرز سے زائد کے سمجھوتے امریکہ اسلحہ سازکارخانوں سمیت دیگر صنعتوں میں اِس حدتک بہتری کا باعث بنیں گے جس سے امریکی معیشت کو کافی سہارہ ملے گا۔ دورے سے جو دوسرا بڑا مقصد حاصل ہوگا وہ یہ ہے کہ چین کی مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی مداخلت کی رفتار اب کسی حد تک سُست ہو جائے گی۔
گزشتہ چند برس کے دوران سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے چین سے تعلقات بہتر بنائے۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کرانے سے بھی چین کو خطے میں اہم مقام حاصل ہونے کا امکان پیدا ہوا، نیز برکس کی صورت میں جو امریکہ مخالف بلاک تشکیل پانے کی باتیں ہو رہی ہیں اُن میں بھی کسی حد تک کمی آئے گی کیونکہ ایک بار پھر خطے کے امیر ممالک کو امریکہ دفاع کی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اسی بنا پر تمام تر خدشات اور متبادل دستیاب ہونے کے باوجود معاہدے ممکن ہوئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ممالک چین و برکس کے باوجود آج بھی امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔
خلیجی ممالک کے دورے سے قبل یا بعد میں ٹرمپ اسرائیل نہیں گئے اِس گریز پر کہا جارہا ہے کہ شاید ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکی معیشت کی پالیسی سے اسرائیل کی حثیت ثانوی ہوگئی ہے مگر ایسے کسی خیال سے مجھے اتفاق نہیں۔ آج بھی مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفاد کا محافظ اسرائیل ہے جس نے عرب ممالک کے بدلتے تیور بھانپ کر عربوں کو امریکہ کی طرف ہانکا لگایا ہے۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جس غیر ملکی مہمان کا سب سے پہلے استقبال اور مہمان نوازی کی وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو ہیں، جو عرب خطے میں امریکہ کے لیے اہم اور ناگزیر ہونے کا اشارہ ہے۔
اِس مہمان نوازی کے دوران ہی وزیرِ اعظم یاہونے کہا کہ تمام امریکی صدور سے زیادہ ٹرمپ اسرائیلیوں کے دل کے قریب ہیں۔ یہ درست ہے کہ پہلی مدتِ صدارت کے دوران جب ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا رُخ کیا تو اسرائیل جاکر انھوں نے دو اہم کام یہ کیے اول۔ تل ابیب میں موجود امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی کاافتتاح کیا دوم۔ شام کے حصے دفاعی حوالے سے اہم ترین علاقے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کااعلان کیا۔ خلیجی ممالک کا دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس وطن لوٹ جانے کو اسرائیل کے متعلق پالیسی میں تبدیلی قرار دینا اِس بنا پر درست نہیں کہ سعودی عرب میں میزبان ملک کو واضح الفاظ میں ہدایت کی کہ آپ کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا میری عزت افزائی ہے۔
شامی صدر کو پابندیاں ہٹانے کی نوید سناتے ہوئے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فرمائش کی جبکہ قطر میں بھی ہدایت و فرمائش کو دُہرایا۔ عرب امارات کیونکہ پہلے ہی اسرائیل کا خطے میں ایک قابلِ اعتماد شراکت دار ہے اِس لیے ایسی کسی ہدایت و فرمائش کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ دراصل صدر ٹرمپ کا حالیہ دورہ مالی فوائد کے تناظر میں ترتیب دیا گیا تھا اسی لیے اسرائیل جانے سے اجتناب کیا وگرنہ اُس کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے کمی نہیں آئی۔
تحائف وصول کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ خلیجی ممالک کو زیادہ سے زیادہ سامان فروخت کیا جائے۔ عدمِ تحفظ کا شکار عرب ممالک کو ٹرمپ کی اسلحہ فروخت کرنے کی فیاضی لگی ہے ٹرمپ نے معاہدے کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ اگر سرمائے کی ہمیں ضرورت ہے تو اسلحے کی آپ کو بھی ضرورت ہے حالانکہ یہ وہ اسلحہ ہے جو عرب ممالک کے لیے غیر اہم ہے کیونکہ اِسے استعمال کرنے کے لیے بھی وہ امریکہ کے محتاج رہیں گے اور کب امریکی اِس حوالے سے معذوری ظاہر کردیں اِس کا انحصار حالات پر ہے۔
1973 کی جنگ میں جب مصر اور شام کی افواج نے روسی سلحے سے اسرائیل کی کمر توڑدی تو وزیرِ اعظم گولڈامائر کی طرف سے جوہری اہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی پر ہی نکسن انتظامیہ نے نڈھال اسرائیل کی آپریشن نکل گراس کے زریعے مدد کی اور اسلحہ سے بھرے طیارے روزانہ بڑی تعداد میں اسرائیل آتے رہے کہ تیس اکتوبر کی جنگ بندی تک اسلحے کی قلت پوری کردی۔ سعودی عرب 1932 اپنے قیام سے لیکر آج تک دوستانہ نشیب و فراز کے باوجود امریکہ کے لیے اہم ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ جب عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی روش پر گامزن ہیں تو یہ اسلحہ وہ کِس سے لڑنے کے لیے خرید رہے ہیں؟
اِس سوال کا جواب سمجھ نہیں آتا اگر ایران سے مقابلے کی تیاری مقصود ہے تو ذہن یہ تسلیم نہیں کرتا۔ آج ایران اِس حد تک کمزور ہوچکا ہے کہ اپنے اہم ترین اتحادی بشار الاسد کی مدد تک کی ہمت نہیں کرسکا اور اُنھیں اقتدار چھوڑ کر روس میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔ وہ تو حماس کو بھی بے یارومددگار چھوڑ چکا ہے۔ یمنی حوثی بھی حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ اسی بنا پر اسلحہ معاہدے عربوں کے لیے غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں البتہ اِن معاہدوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خطیر رقم امریکی معیشت کو بہتر کر سکتی ہے۔
ٹرمپ نے ہمیشہ جنگوں سے بے زاری ظاہر کی ہے وہ پاک بھارت جنگ کا خاتمہ اپنی کوششوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ روس اور یوکرین میں جاری جنگ ختم کرانے کے لیے صدر پوٹن سے بات کرچکے ہیں مگر جب غزہ پر اسرائیلی حملوں کی بات ہوتی ہے تو قحط کا اعتراف کرنے کے باوجود اسرائیلی حملوں کو مشروط کردیتے ہیں جن میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ حماس کی طرف سے آئندہ اسرائیل پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے۔ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو دہشت گردی تصور کرتے ہیں حزب اللہ کی حمایت ختم کرنے اور جوہری معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں ایران پر پابندیوں کی دھمکی دیتے ہیں۔ دراصل امریکہ کا دُہرا معیار ہے وہ مفاد کے تناظرمیں خیالات بدل لیتا ہے عربوں سے دولت ہتھیانے میں ٹرمپ نے جس سفارتی مہارت کا مطاہرہ کیا ہے اَس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ٹرمپ دورے کابس یہی مقصد قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔