Thursday, 12 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Aman Mumkin Hai Magar

    Aman Mumkin Hai Magar

    اشتعال انگیزیوں کے جواب میں غیر متوقع پاکستانی دندان شکن ردِعمل پر بھارت ابھی تک صدمے میں ہے لیکن کیا اُسے اپنی حماقتوں اور خامیوں کا کچھ ادراک ہوگیا ہے؟ اِس بارے وثوق سے کچھ کہنا اِس بنا پر مشکل ہے کہ وہ تو لگنے والے زخموں کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہے اور دنیا کو باور کرانے کی تگ و دو میں ہے کہ پاکستان پر کاری وار تو ہم نے کیا حالانکہ دنیا بھارتی معاشرے کی طرح احمق نہیں جوہر جھوٹ پر یقین کرلے۔

    یہ سچ توسب پر آشکار ہے کہ بھارت نے رات کی تاریکی میں مذہبی مقامات اور شہری آبادی کونشانہ بنایا جبکہ پاکستان نے دن کے اُجالے میں چھبیس کے قریب دفاعی مقامات کو تباہ کردیا۔ یہ ایک جچا تلا دلیرانہ جواب تھا جو کسی سے پوشیدہ نہیں اسی بنا پر حکومتی ہدایات کے مطابق بھارتی میڈیا باوجود کوشش سچ کو جھٹلانے سے قاصر ہے بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں سنانے سے بھارتی میڈیا خود اپنی ساکھ سے محروم ہو رہا ہے جو ایسا تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ فضائی جھڑپوں میں بھارت نے پاکستان کوسخت نقصان پہنچایا ہے۔ دراصل گودی میڈیا سُبکی چھپانے کے لیے کامیابی کے افسانے تراش رہا ہے ایسے جھوٹ بولنے کی ہرگز ضرورت پیش نہ آئے اگر مودی حکومت نفرت، تعصب اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست ترک کردے اورخطے میں امن کے فروغ میں حصہ دار بنے۔

    جنگ بندی کے لیے بھارت نے امریکہ سے رابطہ کیا اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور جنگ بندی پر آمادہ کرنے کا مطالبہ کیا نہ صرف امریکی وزیرِ خارجہ بلکہ نائب صدر بھی دونوں ممالک سے رابطے میں رہے۔ اِس دوران سعودی عرب اور ترکیہ نے بھرپور معاونت کی اور پاکستان کو جوابی ردِ عمل محدود رکھنے پر آمادہ کیا۔ پاکستان نے ماضی میں بھی کبھی کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کی بلکہ ہمیشہ کشیدگی بڑھانے سے حتی الامکان گریز کیا، اب بھی دوست ممالک کی فرمائش پر واضح فتح کے باوجود جنگ بندی پر آمادہ ہوا مگر بھارت نے خطے کا امن داؤ پر لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اب بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ جنگ بندی کا مطالبہ پاکستان نے کیا۔

    وہ تو یہ تسلیم کرنے سے بھی گریز اں ہے کہ پاکستان کو سخت ردِ عمل دینے پر اُس نے خود مجبور کیا نریندرامودی جسے سیاست چمکانے کے لیے ہمیشہ بہانوں کی تلاش رہتی ہے وہ پاکستان سے مقابلے میں ایسا کچھ حاصل نہیں کرسکا اِس کے باجود کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ملک میں کبھی فتح کی ریلیاں نکلوائی جاتی ہیں اور کبھی دفاعی نظام ایس 400 کی تباہی کی خبروں کو غلط ثابت کرنے کے لیے جعلی تصویروں کا سہارہ لیا جانے لگا ہے، مگر عالمی زرائع ابلاغ بھارت کی کسی جھوٹی کہانی کو اہمیت نہیں دے رہے۔ اب بھی بھارت سے کسی بھی غیرذمہ دارانہ کاروائی کا اندیشہ موجود ہے لہذا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان ہر قسم کے حالات کی تیاری رکھے کیونکہ اسلحہ خریدنے میں اچانک تیزی بھارتی نیت کے کھوٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب جنگ بندی ہوچکی تو دھڑا دھڑ اسلحہ کے انبار جمع کرنے کا کیا جواز ہے؟

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ ریاض دورے کے دوران انھوں نے خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے خود کو امن کے داعی کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ بلاشبہ پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ ایک ایسی تاریخی کامیابی ہے جس میں امریکہ کا کلیدی کردار ہے مگر امریکی اسلحہ کی بھارت کو فراہمی میں غیر ضروری تیزی ناقابلِ فہم ہے۔ یہ تو صاف الفاظ میں بھارت جیسے منتقم مزاج ملک کو اُکسانے والی بات ہے۔ جب صدر ٹرمپ پاک بھارت قیادت کو کہتے ہیں کہ ایٹمی میزائلوں کی تجارت نہ کریں بلکہ اِن چیزوں کی تجارت کریں جو آپ خوبصورتی سے بناتے ہیں تو اُنھیں خود بھی جنوبی ایشیا کو باردوکے ڈھیر لگانے میں حصہ دار لینے سے گریز کرنا چاہیے۔

    اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ چانکیائی سیاست کے علمبردار بھارت سے توقع رکھنا کہ جارحانہ عزائم چھوڑ کر امن پسند ہوجائے گا درست نہیں بلکہ جارحانہ عزائم رکھنے والے ملک سے محتاط رہنا ہی دانشمندی ہے بھارت ایک ایسا ملک ہے جو صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے یہ موقع کی تاک میں رہتا ہے اور سازگار حالات دیکھ کر وار کر گزرتا ہے۔ نئے ہتھیاروں کی فراہمی سے کسی وقت بھی اُس کا دماغ خراب ہو سکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ خطے کا امن برقرار رکھنے کے لیے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی پرامریکہ نظر ثانی کرے۔

    رواں ہفتے 13 مئی کوسعودی عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کے لیے مصالحتی کردار کا اعادہ کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ شاید وہ پاک بھارت قیادت کو ایک خوشگوار عشایئے پر اکٹھا کر لیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک میں مستقل طور پر تصادم کا امکان ختم ہوسکتا ہے مگر ایسے حالات میں جب دونوں طرف لفظی جنگ جاری ہے نیز دونوں ہی ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر نکل جانے کا حکم دے رہے ہیں۔

    اِس تناظر میں دو متحارب ممالک کی قیادت کو عشایئے پر اکٹھا کرنے کی خواہش یا تجویز بظاہر بعید از امکان لگتی ہے کیونکہ ایسا تبھی ممکن ہے جب دونوں طرف امن کی ایسی خواہش موجود ہو جبکہ حالات یہ ہیں کہ بھارت پر بالادستی کا بھوت سوار ہے اور دس مئی کے واقعات کے بعد نریندرمودی جنھیں میڈیا کا ایک حصہ سرنڈرمودی کا لقب دینے لگا ہے وہ سبق حاصل کرنے کی بجائے دوملکی اختلافات کو مذہبی آویزش بنانے کے چکر میں ہیں۔ ایسی خواہش یا تجویز خطے کے امن کے لیے تباہ کُن ہو سکتی ہے اگر امریکی صدر اپنی خواہش یا تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہیں تو اُنھیں بھارتی قیادت کو جارحانہ عزائم ترک اور پُرامن ہمسائیگی پر آمادہ کرنا ہوگا۔

    پاک بھارت دوستی مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صدیوں کے دشمن ایک دوسرے کے بااعتماد دوست بن گئے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اپنے تنازعات کو مزاکرات سے حل کیا اور آنے والی نسلوں کو امن و خوشحالی دینے کے لیے اعتماد و تعاون کی کیفیت لانے پر سنجیدگی سے کام کیا۔ نفاق کا شکار یورپ آج جس طرح یکجا اور ایک ہے یہ دوستی قیادت کی فہم و فراست کا ہی نتیجہ ہے۔

    اگر قیادت حقائق کا ادراک نہ کرتی اور تنازعات حل کرنے کی بجائے برقرار رکھتے ہوئے جنگ وجدل میں الجھی رہتی تو آج جس طرح یورپ جنگوں سے پاک اور ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن ہے یہ منزل ہر گز حاصل نہ ہوتی۔ جنوبی ایشیا میں بھی ایسا ماحول چنداں مشکل نہیں اگر بھارت آبی جارحیت سے تناؤ نہ بڑھائے۔ ہمسایہ ممالک میں دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑ دے تقسیم ہند کے اصول کے مطابق مسلہ کشمیر حل کرنے میں نیک نیتی کامظاہرہ کرے خطے میں امن تبھی ممکن ہے جب امریکہ بھی باتوں تک محدودنہ رہے اور بھارت کو اسلحہ فراہمی جیسی بے جاعنایات سے دستکش ہوجائے۔