ایک دلچسپ موضوع بلاول بھٹو کو عالمی سفارتکاری کے لئے وزیراعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کا سربراہ بنائے جانے پر ہونے والے تبصروں کی صورت میں موجود ہے دوسرا تلخ موضوع کم عمری کی شادیوں (18 سال سے کم) کے خلاف حال ہی میں ہوئی قانون سازی پر مولانا فضل الرحمن کی جانب سے احتجاج کی دھمکی اور خان عبدالولی خان مرحوم کے پوتے سینیٹر ایمل ولی خان (یہ نوجوان اے این پی کا مرکزی صدر بھی ہے) کی سینیٹ میں کی گئی تقریر بھی ہے۔
ان دونوں پر ہلکی پھلکی بات آئندہ سطور میں آگے چل کر کرتے ہیں۔ فی الوقت اس نیوز آف دی ڈے پر بات کرتے ہیں نیوز آف دی ڈے یہ ہے کہ بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو وفاقی کابینہ نے فیلڈ مارشل کے منصب پر ترقی دینے کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی کابینہ کے فیصلے پر وزیراعظم نے صدر مملکت کو اعتماد میں لیا اور پھر باضابطہ طور پر اس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر، فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیر ہیں۔ لندن میں مقیم ہمارے الطاف حسین بھائی جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنائے جانے پر "شاداں شاداں" ہیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، عسکری حکام، وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور دیگر خاص و عام کے توصیفی و خیرمقدمی بیانات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔
اس موقع پر ایک مرحوم ملتانی دوست شیخ ظہور احمد بہت یاد آئے وہ زندہ ہوتے تو ملتان سے شائع ہونے والے تمام اخبارات کو بلاامتیاز نصف نصف صفحے کا اشتہار ضرور دیتے۔ ان کی اشتہار بازی کے شوق پر دوستوں کے حلقے میں انہیں شیخ اشتہار احمد بھی کہا جاتا تھا۔
شیخ ظہور احمد کو ایک بار ملتان ایئرپورٹ پر اعلیٰ و نکے سرکاری افسران کے ہجوم میں آگے بڑھاتے ہوئے جناب نوازشریف نے ملتان میں اپنا محمد بن قاسم قرار دیا تھا۔ پھر شیخ کی لاٹری لگ گئی ان دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے شیخ ظہور احمد سے کہا "سنبھل کر رہنا اور محمد بن قاسم بننے کی کوشش نہ کرنا ورنہ انجام گائے کی کھال میں سلوا کر لے جانا ہوتا ہے"۔
شیخ نے مسکراتے ہوئے سگریٹ کا کش لگایا اور بولے "یار شاہ توں اوکھیاں گالیں بہوں کریندیں"۔ اللہ بخشے شیخ ظہور احمد اچھے دوست اور باغ و بہار شخصیت تھے۔
حافظ سید عاصم منیر الحسنی کو فیلڈ مارشل کے منصب پر ترقی ملنے سے اور کوئی خوش ہوا ہو یا نہیں ہمارے ڈپٹی غوث الاعظم پیر سید اجلال علی گیلانی یقیناً بہت خوش ہوں گے۔ فقیر راحموں نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے حسنی سادات سے تعلق رکھنے والے سید زادے کو فیلڈ مارشل بنائے جانے پر "بڑے کھانے" کا اعلان کیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ بڑا کھانا کب اور کہاں ہوتا ہے اور اس میں وہ چچیرے سادات کو بھی بلاتے ہیں یا نہیں۔ جنرل عاصم منیر کی بطور فیلڈ مارشل ترقی تقریباً شام کے وقت عمل میں آئی لیکن اس سے چند گھنٹے قبل اڈیالہ جیل میں مقیم "قلندرِ" دوراں سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی بہنوں اور وکلاء سے کہا "میں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لئے تیار ہوں مجھے ڈیل نہیں چاہیے پاکستان کے لئے بات کرنا چاہتا ہوں نیز یہ کہ فوج بھی میری ہے اور پاکستان بھی میرا ہے"۔
چند گھنٹے بعد جب جنرل حافظ سید عاصم منیر الحسنی کو فیلڈ مارشل بنادینے کی خبر آئی تو فقیر راحموں کہنے لگا "شاہ دیکھ میں نے تجھے کہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی طرح عمران خان بھی زندہ ولی ہے لیکن تم نے مانا نہیں اب جو اشارے خان نے دوپہر میں دیئے وہ شام میں روز روشن کی طرح عیاں ہوگئے"۔
سچ پوچھیں تو میں نے فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیرالحسنی کی ترقی پر جلتے بھنتے دو تین جیالوں اتنے ہی پٹواریوں اور نصف درجن اڈیالویوں کو فیس بک اکائونٹ پر ان فرینڈ اور بلاک کرنے کا ثواب گزشتہ شب اور آج کمایا۔ عجیب تھڑدلے لوگ ہیں ترقی میں سے بھی مایوسی اور سازشی تھیوری کشید کررہے تھے۔
پاکستان میں اس سے قبل اولین فوجی آمر جنرل ایوب خان بھی فیلڈ مارشل بنے تھے۔ روایت یہ ہے کہ فیلڈ مارشل بننے کا مشورہ انہیں ان کی کابینہ کے ایک وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔ ایوب خان کے فیلڈ مارشل بننے پر برجستہ تبصرہ جناح صاحب کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا تھا۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان مرحوم نے اپنی سوانح حیات "جمہوریت صبر طلب" میں اسے نقل کیا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے کہا "جس شخص کو بریگیڈیئر کے عہدے سے برطرف کردیا جانا چاہیے تھا وہ بستر میں پڑے پڑے فیلڈ مارشل بن بیٹھا"۔
یاد رہے اس قول صادق کو کسی مماثلت کے بغیر یہاں درج کیا ہے بہرحال حافظ سید جنرل عاصم منیرالحسنی کو فیلڈ مارشل کے منصب پر ترقی و تقرری مبارک ہو۔ ویسے ہمارے مبارک نہ دینے سے بھی کوئی فرق پڑنا تھا نہ ترقی و تقرری رک جانی تھی اس لئے مبارکباد دینا ہی بہتر ہے البتہ یہ سچ ہے کہ ایوب خان خودساختہ فیلڈ مارشل تھے اور جنرل عاصم منیر فارم 47 والی حکومت (بقول پی ٹی آئی) کے بنائے گئے فیلڈ مارشل ہیں۔
البتہ مجھے افسوس ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے پاکستانی ڈیزائنر (آپ مستری بھی کہہ سکتے ہیں) جناب کامریڈ میاں محمد نوازشریف جنگ کے خاتمے کے بعد سے جس طرح مسلسل نظرانداز ہورہے ہیں اس پر میں اور فقیر راحموں بہت دکھی ہیں ہم نے سوشل میڈیا پر کامل ایمانی جذبے کے ساتھ وہ ویڈیوز دیکھیں جن میں قبلہ نوازشریف جہاز بنانے کے ساتھ جنگ کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔
یقیناً ان قومی خدمات پر انہیں بھی "فیلڈ مستری آف جنگ" کا منصب ملناچاہیے تھا۔ چند ستم ظریفوں نے سوشل میڈیا پر انہیں طنزیہ طور پر "ایون فیلڈ مارشل" لکھا ہے ہم ان جگت بازوں کی بھونڈی اور سستی جگت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کی عسکری خدمات کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں ان کی زیرنگرانی اتفاق فونڈری میں توپیں، فوجی گاڑیاں اور گولہ بارود بنتا رہا۔ حال ہی میں ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نوازشریف نے انکشاف کیا کہ ایک دو جنگی طیاروں کے ڈیزائن بھی میاں صاحب نے بنائے۔
تاریخی اور گرانقدر بے لوث خدمات سرانجام دینے والی قابل شخص کو یوں یکسر نظرانداز کردینا ہرگز ہرگز اچھی بات نہیں ان کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں پتہ نہیں انہوں نے "چیف فیلڈ مستری آف جنگ" کے منصب کے لئے میاں محمد نوازشریف کے اسم گرامی کا اعلان نہیں کیا؟
ہم بہرطور میاں صاحب کو اب باقی ماندہ زندگی میں "چیف فیلڈ مستری آف جنگ" سمجھتے لکھتے رہیں گے تاکہ سند رہے اور قوم بھولے نہیں۔
عالمی سفارتکاری کے لئے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بلاول بھٹو کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی پر نونیوں اور اڈیالویوں کے ہاں جو سوگ برپا ہے اس کے پیش نظر ہم وزیراعظم شہباز شریف سے مودبانہ درخواست کریں گے کہ وہ بلاول کی جگہ حذیفہ رحمن کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کریں اوراس کے ارکان کی بھی ازسرنو تقرری عمل میں لائیں تاکہ نونیوں اور اڈیالویوں کی چمنیوں سے اٹھتا دھواں بند ہو۔
کالم کے اس حصے میں کم عمری کی شادی کے خلاف ہوئی قانون سازی پر سینیٹ میں اے این پی کے سربراہ عزیزم ایمل ولی خان کی تقریر پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی عرض کرسکتے ہیں کہ اے این پی نے یہ دن بھی دیکھنے تھے۔
ذاتی طور پر ہمیں عزیزم ایمل ولی خان کی رجعت پسندی سے عبارت اس تقریر پر اس لئے ملال ہوا کہ اے این پی جس نیشنل عوامی پارٹی کی وارث ہے وہ ہماری پہلی سیاسی محبت تھی۔ سیاسی جماعتوں سے غلطیاں ہوتی ہیں سیاسی جماعتیں غلطیاں دہراتے چلے جانے کی بجائے ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے نیپ جیسی ترقی پسند سوشلسٹ پارٹی اے این پی کی صورت میں پشتون قوم پرست پارٹی بن گئی یہاں تک تو درست تھا لیکن پشتون قوم پرست جماعت کے سربراہ کا کسی مسیتڑ مولوی کی طرح سوچنا بولنا افسوسناک ہے۔
ایمل ولی خان کو نہ صرف کم عمری کی شادی والے قانون کے خلاف سینیٹ میں کی گئی تقریر پر کھلے دل سے معذرت کرنی چاہیے بلکہ مستقبل میں ہوش کا دامن بھی تھامے رہنا چاہیے۔