یوم تکبیر، پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے جو ہر سال 28 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس وقت کو یاد کرتا ہے جب پاکستان نے 1998 میں ایٹمی طاقت کے طور پر اپنی حیثیت کو عالمی سطح پر تسلیم کرایا۔ اس دن کی خاصیت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے قومی وقار کی خاطر ایٹمی دھماکے کیے، جس نے نہ صرف اس کے دفاعی امکانات میں اضافہ کیا بلکہ عالمی سطح پر اس کی شناخت کو بھی مضبوط کیا۔ یوم تکبیر کی یہ حیثیت نہ تو صرف اس وقت کی سیاسی حالت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ آج بھی ہمیں اپنے قومی تشخص، خودمختاری اور وقار کا احساس دلاتی ہے۔
پاکستان نے ایٹمی پروگرام کی شروعات 1970 کی دہائی میں کی، جب اس وقت کی حکومت نے محسوس کیا کہ ایک مضبوط ایٹمی طاقت کے بغیر ملکی دفاعی حیثیت کو مستحکم کرنا مشکل ہوگا۔ اس وقت کی عالمی سیاست، خاص طور پر بھارت کے جوہری تجربات، نے پاکستان کو اس راہ پر گامزن ہونے کی ترغیب دی۔ 1974 میں، پاکستان کے بانی قائد محمد علی جناح کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام گیارہ سالوں کے دوران مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔ 1980 کی دہائی میں، ملک کے ایٹمی توانائی کے اداروں نے اس پروگرام کو مزید وسعت دینے کا کام شروع کیا۔ اس دوران، پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں نے مختلف تجربات کیے، جن میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی تحقیق اور ترقی شامل تھی۔ سب سے نمایاں نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے، جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مزید آگے بڑھایا اور ملکی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان کی ایٹمی طاقت بننے کی کوششوں کے دوران عالمی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آئے۔ بھارت کا ایٹمی تجربہ 1974 میں، جسے "سمیٹرا" کا نام دیا گیا، نے پاکستان کی ایٹمی کوششوں کو ایک نئی شدت دی۔ بھارت کے اس تجربے کے جواب میں، پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے ایٹمی مواد کی تیاری کے ساتھ ساتھ اپنے ہتھیاروں کے نظام کو بھی ترقی دینے پر توجہ دی۔
28 مئی 1998 کو، پاکستان نے بلوچستان کے علاقہ چاغی میں اپنے کامیاب ایٹمی تجربات کا آغاز کیا۔ یہ تجربات دنیا کے سامنے پاکستان کی ایٹمی طاقت کی حیثیت کو اجاگر کرنے والے ایک اہم واقعات تھے۔ وزیراعظم نواز شریف، جنہوں نے ان تجربات کی اجازت دی، نے اس وقت اپنے خطاب میں کہا کہ یہ اقدام نہ صرف پاکستان کے دفاع کے لیے ضروری تھا بلکہ یہ مسلمانوں کی عظمت کو بھی بحال کرنے کی کوشش تھی۔
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، تو عالمی میڈیا نے اسے "جوہری دھماکے" کا نام دیا۔ اس دن، پاکستان نے دنیا کے سامنے یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
یوم تکبیر کے بعد، پاکستان نے ایٹمی طاقت کے طور پر اپنی حیثیت کو عمدگی کے ساتھ پیش کیا۔ عالمی سطح پر متنوع ردعمل سامنے آئے۔ جہاں کچھ ممالک نے پاکستان کے اس اقدام کی مذمت کی، وہاں بہت سے ممالک نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اس کے دفاعی حقوق کا حصہ ہے۔ امریکہ اور بھارت، جو پہلے ہی ایٹمی طاقت کے حامل تھے، نے اسے عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے اپنی کیمیائی و دیگر ہتھیاروں کے پروگرامز کے حوالے سے بھی بین الاقوامی نگرانی کا سامنا کیا۔
تاہم، پاکستان کے ایٹمی دھماکے نے نہ صرف اس ملک کی خودمختاری کو مستحکم کیا، بلکہ اسے مسلم دنیا میں بھی ایک نئے انداز میں پیش کیا۔ مسلم ممالک میں، خصوصاً عرب اور وسطی ایشیائی ممالک میں، پاکستان کو ایک نئے انداز میں دیکھا جانے لگا۔
یوم تکبیر، صرف ایٹمی تجربات کا دن نہیں بلکہ یہ دن پاکستان کی خودمختاری، خود اعتمادی اور قومی اتحاد کی علامت بھی ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ہم متحد ہوتے ہیں تو کوئی بھی چیلنج ہمارے عزم و ہمت کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ یوم تکبیر کے موقع پر، ہر سال ملک بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس دن کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ادارے یوم تکبیر کی تقریبات کے انعقاد کے لیے مختلف سرگرمیاں ترتیب دیتے ہیں۔ قومی چینلز پر اس دن کی مناسبت سے خصوصی نشریات پیش کی جاتی ہیں، جن میں ایٹمی تجربات کی تاریخ اور اس کی اہمیت پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔
یوم تکبیر کو منانے کے لیے مختلف فرهنگی سرگرمیاں بھی ترتیب دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خصوصی نشریات و مضامین شائع کیے جاتے ہیں، جن کے ذریعے نئی نسل کو اس تاریخی واقعے کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
اس دن کے موقع پر سکولوں اور کالجوں میں اسپیشل ایونٹس، تقریری مقابلے اور کوئز کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کو اس دن کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے یہ اقدام بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔
یوم تکبیر کے پس منظر میں کچھ اہم شخصیات کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام سر فہرست ہے۔ انہیں پاکستانی ایٹمی پروگرام کا "بابائے ایٹمی طاقت" بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی محنت اور عزم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ دیگر ایٹمی سائنسدانوں و سیاستدانوں اور رہنماوں نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے وطن عزیز کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے انمول خدمات انجام دیں۔ جن میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام نمایاں ہے۔
یوم تکبیر کے موقع پر، پاکستان نے یہ بھی ثابت کیا کہ اس نے عالمی سیاسی دباؤ کا سامنا کرکے اپنے دفاعی حقوق کے لیے اقدامات کیے۔ یہ قدم صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک مثال تھا۔ یوم تکبیر کی مناسبت سے بین الاقوامی فورمز پر یہ بات بھی پیش کی جاتی ہے کہ ہر قوم کو اپنے دفاع کے لیے مکمل حق حاصل ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یوم تکبیر کے بعد، پاکستان نے نہ صرف اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کو یقینی بنایا بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کی سلامتی کے لیے مختلف اقدامات کیے اور عالمی برادری کو یہ یقین دلایا کہ وہ اپنی ایٹمی طاقت کو صرف دفاعی مقاصد کے لئے استعمال کرے گا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام آج اپنی جگہ ایک مضبوط دفاعی نظام کی طرح کام کر رہا ہے اور یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ قومیں کس طرح عزم و ہمت کے ساتھ کسی بھی چیلنج کا سامنا کرسکتی ہیں۔
یوم تکبیر پاکستانی قوم کے لیے ایک فخر کا دن ہے، جو ہمارے قومی تشخص کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ہم متحد ہوتے ہیں تو کوئی بھی چیلنج ہمارے عزم و ہمت کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ یوم تکبیر، جرات و بہادری کی علامت ہے، جو ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے تیار رہنا چاہیے اور دنیا کے سامنے اپنی طاقت کو وثوق سے ثابت کرنا چاہیے۔
یہ یوم، پاکستان کی تاریخ میں نہایت اہم مقام رکھتا ہے اور اس کی یاد منانا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ نئی نسلیں اپنے ماضی سے آگاہ رہیں اور قوم کے قومی مفادات کا دفاع کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ یوم تکبیر کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے، ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک کی خودمختاری، سلامتی اور ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں گے۔