Tuesday, 17 June 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Ummat e Muslima Ka Imtehan, Bedari, Ittehad Aur Amal Ka Waqt Agaya

    Ummat e Muslima Ka Imtehan, Bedari, Ittehad Aur Amal Ka Waqt Agaya

    مسلم اُمہ اس وقت ایک کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، عسکری اور سماجی لحاظ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امتِ مسلمہ کا اجتماعی تشخص مجروح ہے اور کئی خطوں میں مسلمان ظلم و جبر، استحصال اور بدامنی کا شکار ہیں۔ فلسطین و غزہ میں اسرائیلی جارحیت ہو یا کشمیر میں بھارتی مظالم، شام و یمن کی خانہ جنگی ہو یا افغانستان و عراق کی غیر مستحکم صورتحال، ہر طرف مسلمانوں کی لاشیں، ویران بستیاں اور اجڑے خواب نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے نظریات کو شدت پسندی سے جوڑا جا رہا ہے اور ان کی مزاحمت کو دہشت گردی کے خانے میں رکھا جا رہا ہے۔

    اس وقت دنیا کے تقریباً 57 ممالک اسلامی شناخت رکھتے ہیں اور ان میں سے بیشتر او آئی سی (اوّلمپک آف اسلامک کنٹریز) کے رکن ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک میں اتحاد، یکجہتی اور باہمی تعاون کا فقدان پایا جاتا ہے۔ کسی ایک مسلمان ملک پر حملہ ہو یا کسی قوم کو نقصان پہنچے، باقی مسلم ممالک کی طرف سے صرف رسمی بیانات یا علامتی احتجاج ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ امتِ مسلمہ کی اس غیر متحرک صورتِ حال کا فائدہ عالمی طاقتیں اُٹھا رہی ہیں۔ امریکا، اسرائیل، بھارت اور دیگر طاقتیں مسلمانوں کے وسائل، زمینوں اور عزتوں پر قابض ہو رہی ہیں جبکہ مسلم قیادت بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

    معاشی طور پر بھی بیشتر مسلم ممالک مغربی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر ادارے شرائط کے ساتھ قرض دیتے ہیں جو کہ ملکی خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، خصوصاً تیل، گیس، معدنیات اور زرعی زمینیں، مگر ان کے استعمال میں نااہلی، کرپشن اور بدانتظامی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں سائنسی تحقیق، تعلیم، ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کے میدان میں قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مغرب کی علمی و صنعتی برتری کے محتاج ہو گئے ہیں۔

    سیاست کے میدان میں بھی بیشتر اسلامی ممالک میں جمہوریت کا فقدان ہے۔ بادشاہتیں، فوجی آمریتیں یا مغرب نواز حکومتیں عوامی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتیں۔ ان حکمرانوں کی ترجیحات میں امت کا مفاد شامل نہیں بلکہ اقتدار کا دوام، ذاتی مفادات اور بیرونی طاقتوں کی خوشنودی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم عوام اور قیادت میں فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے اور اسلامی دنیا میں عوامی بیداری کی تحریکیں یا تو دبائی جا رہی ہیں یا ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔

    عسکری میدان میں بھی مسلم ممالک منتشر ہیں۔ ان کے درمیان کوئی متحدہ دفاعی اتحاد نہیں ہے۔ حالانکہ اگر مسلم دنیا اپنی فوجی طاقت کو متحد کر لے تو ایک بہت بڑی عسکری قوت بن سکتی ہے جو نہ صرف اپنے دفاع کے قابل ہو بلکہ مظلوم مسلمانوں کی مدد بھی کر سکے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ یمن کی جنگ، شام کا بحران، لیبیا کی خانہ جنگی اور قطر و سعودی عرب کے درمیان اختلافات، ان تمام مسائل کی جڑ مسلم اتحاد کی کمی ہے۔

    موجودہ حالات میں میڈیا کا کردار بھی قابلِ غور ہے۔ مغربی میڈیا مسلمانوں کو شدت پسند، بنیاد پرست اور غیر مہذب قوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جبکہ مسلم دنیا کا اپنا میڈیا یا تو حکومتی کنٹرول میں ہے یا مغرب کا تابع۔ بہت کم مسلم چینلز یا ادارے ایسے ہیں جو امت کے مسائل کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کریں یا اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے رکھیں۔ نتیجتاً اسلامو فوبیا کا رجحان بڑھ رہا ہے اور مسلمانوں کو مغربی ممالک میں تعصب، نفرت اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

    ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم امت کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

    سب سے پہلا قدم اتحادِ امت ہے۔ قرآن مجید میں واضح ہدایت ہے: "وَاعُتَصِمُوا بِحَبُلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آل عمران: 103)۔ امت کے درمیان فرقہ واریت، لسانیت، قوم پرستی اور جغرافیائی تقسیم کو ختم کرکے ایک مشترکہ اسلامی شناخت کو فروغ دینا ہوگا۔ او آئی سی کو صرف اجلاسوں اور اعلامیوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے ایک فعال، مؤثر اور فیصلہ کن ادارہ بنایا جائے۔

    دوسرا اہم پہلو تعلیم اور تحقیق ہے۔ مسلم دنیا کو اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات لا کر سائنس، ٹیکنالوجی، طب، انجنیئرنگ اور سوشل سائنسز کے میدان میں ترقی کرنی ہوگی۔ نوجوان نسل کو جدید تعلیم کے ساتھ اسلامی اقدار سے بھی روشناس کرانا ہوگا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں، ریسرچ سینٹرز اور انوویشن ہبز کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔

    تیسرا پہلو معاشی خودمختاری ہے۔ مسلم ممالک کو مشترکہ مالیاتی ادارے، بینک، سرمایہ کاری فورمز اور تجارتی منڈیاں قائم کرنی چاہئیں۔ اسلامی بینکاری، زکوٰۃ اور وقف جیسے نظام کو فعال بنا کر غربت، بے روزگاری اور معاشی ناہمواریوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ مسلم دنیا میں ہنر مند افرادی قوت کی کمی نہیں، ضرورت صرف اس کی بہتر منصوبہ بندی اور استعمال کی ہے۔

    چوتھا اہم عنصر اسلامی میڈیا کا قیام ہے جو کہ امت کی ترجمانی کرے، اسلام کے مثبت پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور مغربی پراپیگنڈے کا توڑ بنے۔ ایک عالمی اسلامی نیوز ایجنسی، فلم انڈسٹری اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی تشکیل ضروری ہے۔

    پانچواں اور نہایت اہم نکتہ اخلاقی و روحانی احیاء ہے۔ امت مسلمہ کو دنیا میں اپنا مقام واپس حاصل کرنے کے لیے کردار سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ دیانت، عدل، رحم، ایثار، صبر اور اخلاص جیسے اوصاف کو عام کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کی شناخت صرف عبادات سے نہیں بلکہ عملی زندگی میں اعلیٰ اخلاق اور انسان دوستی سے بنتی ہے۔

    اس وقت فلسطین، کشمیر کے ایغور مسلمانوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی جو حالت ہے، اس پر صرف افسوس یا مذمت کافی نہیں۔ مسلم دنیا کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف صرف نعروں سے کچھ حاصل نہ ہوگا، جب تک مسلم دنیا اقتصادی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر متحد ہو کر ردعمل نہ دے۔ اسی طرح کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف صرف جمعہ کی نمازوں کے بعد مظاہروں سے کچھ حاصل نہ ہوگا، جب تک اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں مؤثر مسلم لابنگ نہ ہو۔

    آج کے دور میں ڈیجیٹل دنیا میں مسلمان نوجوانوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب، بلاگنگ، وی لاگز، ایپس اور گیمز کے ذریعے اسلامی تعلیمات، اتحادِ امت اور عالمی ناانصافیوں کو مؤثر انداز میں اجاگر کرنا ہوگا۔ عالمی بیانیے کو چیلنج کرنے کے لیے جدید ذرائع کو اپنانا ہوگا۔

    مسلم قیادت کو بھی اپنے طرزِ حکمرانی پر غور کرنا ہوگا۔ کرپشن، اقربا پروری، ظلم، بے عدالتی اور نااہلی جیسے عوامل نے مسلم معاشروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق شفاف، جواب دہ، خدمت گزار اور عوام دوست نظام حکومت قائم کرنا ہوگا۔ صرف اسلامی نعرے یا علامات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے تبدیلی ممکن ہے۔

    عالمی سطح پر ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک، مذہبی آزادی اور رواداری کا مظاہرہ کرکے ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اسلام حقیقی معنوں میں امن، انصاف اور انسانیت کا علمبردار ہے۔

    آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امت مسلمہ اگر قرآن و سنت کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کا مرکز و محور بنا لے، علم، اتحاد، اخوت، قربانی، جدوجہد اور تقویٰ کو اپنائے، تو وہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار، عظمت اور اقتدار حاصل کر سکتی ہے۔ بقول علامہ اقبال:

    خُدی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خُدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

    یہی وقت ہے کہ ہم مایوسی، غلامی اور غفلت کے دائرے سے نکل کر امید، عمل اور بیداری کے سفر کا آغاز کریں۔ امتِ مسلمہ کا عروج ہمارے شعور، اتحاد اور قربانی سے وابستہ ہے۔