Friday, 11 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Muslim Umma, Halat e Hazra Aur Aainda Ka Laiha e Amal

    Muslim Umma, Halat e Hazra Aur Aainda Ka Laiha e Amal

    دنیا اس وقت شدید ترین جغرافیائی، معاشی، تہذیبی اور عسکری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ اقوامِ عالم کی نظریں عالمی طاقتوں کی حرکات و سکنات پر مرکوز ہیں اور ہر ملک اپنی بقاء و مفادات کے تحفظ کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ لیکن جب ہم مسلم امہ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک تکلیف دہ اور افسوسناک منظر سامنے آتا ہے۔ امتِ مسلمہ جو کبھی سائنس، فن، عدل، تہذیب، سیاست اور قیادت میں دنیا کی راہنمائی کیا کرتی تھی، آج وہ اندرونی خلفشار، بیرونی دباؤ، فکری انتشار، سیاسی ناپختگی اور معاشی غلامی کا شکار ہے۔ عالمِ اسلام میں انتشار کا عالم یہ ہے کہ کہیں بادشاہت کے سائے میں آمریت ہے، کہیں جمہوریت کے لبادے میں استبداد، کہیں قبائلی جھگڑے ہیں، کہیں فرقہ وارانہ نفرتیں اور کہیں قومی و نسلی تعصب نے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کر رکھا ہے۔

    فلسطین، شام، یمن، افغانستان، لیبیا اور عراق کی مثالیں واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یہ تمام خطے اپنے جغرافیہ، مذہب اور تہذیب کے لحاظ سے اہم ترین مسلم خطے شمار ہوتے ہیں، لیکن یہاں کی عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم، بربریت، مداخلت اور خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ فلسطین پر اسرائیلی تسلط اب محض قبضے کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ ظلم کی ایک طویل داستان بن چکا ہے، جس میں بچوں، خواتین، بزرگوں، صحافیوں اور حتیٰ کہ ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور عالمی ضمیر صرف اس وقت جاگتا ہے جب ان کے اپنے مفادات متاثر ہونے لگتے ہیں۔

    عرب لیگ، او آئی سی اور دیگر مسلم تنظیمیں جو بظاہر مسلم ممالک کی نمائندگی کرتی ہیں، وہ اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ ان کی قراردادیں محض رسمی بیانات بن چکی ہیں، جن کا نہ تو کوئی عملی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی حیثیت۔ مغربی طاقتیں جنہوں نے ہمیشہ اسلامی دنیا کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، وہ آج بھی مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کرکے اپنی خارجہ پالیسی میں دوہرے معیار اپنا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے اس وقت مکمل خاموش ہو جاتے ہیں جب مظلوم فلسطینی یا کشمیری اپنی آزادی کی بات کرتے ہیں۔

    حالیہ دنوں میں اسرائیل کے مظالم نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ مسئلہ صرف زمین کے ٹکڑے کا نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی جنگ ہے۔ اسرائیل کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مسلم ممالک کی قیادت کی کمزوری، مفادات پر مبنی پالیسیوں اور عالمی قوتوں سے خوف نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آج ہم دنیا کے سامنے صرف مظلوم بن کر رہ گئے ہیں۔ جب تک ہم خود اپنی بقاء، آزادی اور عزت کے لیے اجتماعی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک کوئی عالمی طاقت ہمیں انصاف فراہم نہیں کرے گی۔

    دوسری جانب مسلم امہ کو اندرونی سطح پر بھی بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔ فکری انتشار، علمی پسماندگی، تعلیمی زوال، ٹیکنالوجی سے محرومی اور جدید تقاضوں سے ناواقفیت نے ہمیں پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ ہماری نئی نسل سوشل میڈیا کے فریب میں مبتلا ہو کر اسلامی شعور سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ دینی و دنیاوی تعلیم کے درمیان تفریق نے نوجوانوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ جدید دنیا میں قومیں تعلیم، تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترقی کر رہی ہیں، جبکہ ہم اب تک اپنے مذہبی و مسلکی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک سب سے پہلے اندرونی اصلاحات کی طرف توجہ دیں۔ تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات کیے جائیں، سائنسی تحقیق کو فروغ دیا جائے، کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں اور عوام کو بنیادی حقوق و سہولیات فراہم کی جائیں۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مثبت رخ دیا جائے اور ان میں خوداعتمادی، خود انحصاری اور اسلامی تشخص کو اجاگر کیا جائے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کی ذہن سازی میں مثبت کردار ادا کرے، نا کہ صرف تفریح، فیشن اور بے مقصد مواد پر زور دے۔

    جہاں تک امتِ مسلمہ کے اجتماعی اتحاد کا تعلق ہے، تو اس کے لیے اولین شرط یہی ہے کہ تمام مسلم ممالک باہمی اختلافات کو ختم کریں، فرقہ واریت، نسل پرستی اور زبان و قوم کے جھگڑوں سے نکل کر صرف "امت واحدہ" کے تصور کو اپنائیں۔ اسلامی کانفرنس تنظیم جیسے پلیٹ فارم کو فعال بنایا جائے اور اسے صرف رسمی بیانات کے بجائے عملی اقدامات کے مرکز میں بدلا جائے۔ مشترکہ دفاعی معاہدے، مشترکہ اقتصادی زونز، اسلامی ترقیاتی بینک جیسے اداروں کو مزید فعال اور موثر بنایا جائے تاکہ امت اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی محتاج نہ رہے۔

    آج دنیا میں ایسی طاقتیں موجود ہیں جو اسلامی اتحاد سے خائف ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان کبھی متحد نہ ہوں اور ہمیشہ آپس میں برسرِ پیکار رہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ہمارے درمیان نفرت، تعصب اور تفرقہ کے بیج بوتی ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو نہ صرف عبادات بلکہ سیاست، معیشت، معاشرت، اخلاق، عدل اور قانون کے اصول بھی مہیا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی اسلامی ریاست میں جو مثالی نظام قائم کیا، وہ آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

    اگر ہم آئندہ کے لائحہ عمل کی بات کریں تو اس میں چند نکات نہایت اہم ہیں۔ سب سے پہلے مسلم قیادت کو اپنی ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔ اقتدار کی ہوس، کرپشن اور ذاتی مفادات کو ترک کرکے امت کے اجتماعی مفادات کو فوقیت دینا ہوگی۔ دوم، ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا ہوگا تاکہ ہماری نئی نسل نہ صرف دین سے جُڑی رہے بلکہ دنیاوی میدان میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکے۔ سوم، دفاعی اعتبار سے ہمیں خود انحصاری حاصل کرنی ہوگی۔ اسلحہ سازی، جدید ٹیکنالوجی اور سائبر دفاع جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ چہارم، اسلامی معیشت کو فروغ دینا ہوگا، سود سے پاک بینکاری نظام کو مستحکم کرنا ہوگا اور زکوٰۃ، وقف، صدقات جیسے نظام کو منظم کرکے غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

    ایک اور پہلو جو اکثر نظر انداز ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلم عوام کو بھی بیدار ہونا ہوگا۔ اگر عوام اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرے، تو قیادت کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ ووٹ کا درست استعمال، کرپٹ عناصر کا احتساب اور اپنے حقوق کی پرامن جدوجہد ہی ایک بہتر نظام کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ علماء کرام، اساتذہ، دانشوروں اور میڈیا پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امت کو تقسیم کی طرف نہ لے جائیں بلکہ اتحاد، یگانگت اور شعور کی شمع روشن کریں۔

    مسلم دنیا کو اگر اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کرنا ہے، تو اسے نبی کریم ﷺ کی سیرت، خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی اور صحابہ کرام کی قربانیوں سے سبق لینا ہوگا۔ یہ وہی امت ہے جس نے اندلس سے لے کر چین تک علم، عدل، امن اور تہذیب کا پیغام پہنچایا۔ آج بھی اگر ہم اخلاص، اتحاد، علم، کردار اور حکمتِ عملی کو اپنا لیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دوبارہ عروج حاصل نہ کر سکیں۔

    یہ وقت جذباتی نعروں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ ہمیں ماضی کی عظمت پر فخر ضرور ہے لیکن اس پر ناز کرکے ہم مستقبل کی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اپنے رویے، نظام، ترجیحات اور منصوبہ بندی کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہوگا۔ دنیا کسی کا انتظار نہیں کرتی، اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو تاریخ ہمیں عبرت کا نشان بنا دے گی۔ لیکن اگر ہم نے ہوش کے ناخن لیے، اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچانا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا، تو وہ دن دور نہیں جب دنیا پھر سے امت مسلمہ کی قیادت کو تسلیم کرے گی۔