Thursday, 12 June 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Hamiyat Naam Hai Jis Ka Gayi Taimoor Ke Ghar Se

    Hamiyat Naam Hai Jis Ka Gayi Taimoor Ke Ghar Se

    علامہ اقبال کا یہ شعر اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے:

    حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
    وہ غیرت کدۂ ایام ہے جس دن کو لایا ہوں میں

    یہ محض چند لفظوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا نکتۂ آغاز ہے جو ہمیں تیمور کی عظمت، اس کے جنون اور پھر وقت کے ساتھ اس جنون کے مٹ جانے کی داستان تک لے جاتا ہے۔ اقبال نے جس "حمیت" کی بات کی، وہ دراصل وہ آگ ہے جو تیمور جیسے حکمرانوں کے دل میں سلگتی تھی، مگر جو بعد کی نسلوں کے ہاتھوں خاکستر ہوگئی۔ آج جب ہم اس شعر پر غور کرتے ہیں، تو یہ محض ماضی کی یاد نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک پیغام بن جاتا ہے۔

    تیمور، جسے تاریخ ٹیمرلین کے نام سے جانتی ہے، ایک ایسا نام ہے جس نے نہ صرف جغرافیائی سرحدیں توڑیں، بلکہ انسان کی صلاحیتوں کی لامحدودیت کا ثبوت دیا۔ 14ویں صدی میں پیدا ہونے والے اس فاتح نے وسطی ایشیا سے لے کر اناطولیہ تک ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کی بنیاد محض فوجی طاقت پر نہیں، بلکہ ایک واضح نظریے اور "حمیت" کے جذبے پر رکھی گئی تھی۔ اس کے دور میں سمرقند جیسے شہر علم و فنون کا مرکز بنے اور اس کی فوجی مہمات نے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ عزم اور منصوبہ بندی کے سامنے کوئی چیز ناممکن نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تیمور کے "گھر" سے کون سی چیز رخصت ہوئی؟ کیا یہ محض ایک حکمران کا خاندانی ورثہ تھا، یا پھر کوئی ایسی روحانی قوت جو وقت کے ساتھ تحلیل ہوگئی؟

    دراصل، اقبال نے "حمیت" کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ وہ داخلی طاقت ہے جو انسان کو خوابوں کی تعبیر تک پہنچاتی ہے، جو قوموں کو ان کے عروج پر پہنچاتی ہے اور جس کے بغیر کوئی معاشرہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔ تیمور کے بعد اس کی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس کے جانشینوں میں وہ جذبہ باقی نہ رہا۔ مغلیہ سلطنت، جو تیمور کی نسل سے نکلی، نے کچھ عرصے تک اس روایت کو زندہ رکھا، مگر بالآخر وہ بھی عیش پرستی اور داخلی کشمکش کا شکار ہو کر مٹ گئی۔ یہاں تک کہ وہ سمرقند اور بخارا، جو کبھی علم کی روشنی سے جگمگاتے تھے، تاریکی میں ڈوب گئے۔

    تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ عظمت کے مٹنے کی وجوہات ہر دور میں ایک جیسی رہی ہیں۔ تیمور کی سلطنت کا زوال بھی اسی وقت شروع ہوا جب اس کے بعد آنے والوں نے مقصدیت کو ترک کر دیا۔ فتوحات کا جنون تو تھا، مگر ایک واضح نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ جنون محض خونریزی تک محدود ہوگیا۔ اسی طرح، اخلاقی اقدار کی پامالی نے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ تیمور کے دور میں علماء اور فنکاروں کو جو عزت حاصل تھی، وہ بعد کے حکمرانوں نے انہیں نہ دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت کے ٹکڑے ہو گئے اور وہ "حمیت" جو کبھی فتح کی علامت تھی، قصۂ پارینہ بن گئی۔

    آج کے دور میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہم نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اسلامی دنیا آج انتشار، دہشت گردی اور معاشی پسماندگی کا شکار ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں مظلومیت کی داستانیں لکھی جا رہی ہیں اور امت مسلمہ اپنے ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ ایسے میں اقبال کا یہ شعر ہمیں جھنجوڑتا ہے۔ کیا ہماری "حمیت" واقعی تیمور کے گھر سے رخصت ہو چکی ہے؟ کیا ہم اپنی تاریخ کے سنہری ابواب کو بھول چکے ہیں؟

    حقیقت یہ ہے کہ "حمیت" کبھی کسی ایک گھر یا خاندان تک محدود نہیں ہوتی۔ یہ تو ایک چنگاری ہے جو ہر فرد کے اندر موجود ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس چنگاری کو بجھنے دیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر کے تیمور کو پہچانیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تلوار اٹھا کر میدان جنگ میں نکل کھڑے ہوں، بلکہ یہ کہ ہم اپنے مقصد کو پہچانیں، اتحاد کی قوت کو سمجھیں اور علم کے میدان میں اپنا لوہا منوائیں۔ جس طرح تیمور نے ناممکن کو ممکن بنایا، ہمیں بھی جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

    یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آج کی جنگ محاذ پر نہیں، بلکہ تعلیم، معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں لڑی جاتی ہے۔ جب ترکی نے ڈرون ٹیکنالوجی میں دنیا کو حیران کیا، یا پھر ملائیشیا نے معاشی ترقی کی مثال قائم کی، تو یہ دراصل "حمیت" ہی کا نیا روپ تھا۔ اسی طرح، جب مسلم سائنسدانوں نے کووڈ ویکسین تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، تو یہ اقبال کے تصور کی عملی تفسیر تھی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ایسی مثالیں انگشت شمار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو اس "حمیت" سے روشناس کروائیں جو انہیں خواب دیکھنا سکھائے اور پھر ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ہنر دے۔

    اقبال نے تیمور کو محض ایک تاریخی شخصیت کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ اسے ایک علامت بنایا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی تاریخ کے اسباق کو سمجھیں اور انہیں اپنے حال پر منطبق کریں۔ آج بھی اگر ہم چاہیں تو اپنے اندر وہی جذبہ جاگ سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کا اعتراف کریں، اپنی طاقتوں کو پہچانیں اور پھر ایک منظم کوشش کے ساتھ آگے بڑھیں۔ جس طرح تیمور نے اپنے عزم سے دنیا کو حیران کیا، ہم بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔

    آخر میں، یہی کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عظمت کبھی حتمی طور پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ صرف سوئی ہوئی چنگاری ہوتی ہے، جسے ہوا دے کر دوبارہ بھڑکایا جا سکتا ہے۔ اقبال کا یہ شعر ہمیں یہی ترغیب دیتا ہے کہ ہم تیمور کے گھر سے نکلنے والی "حمیت" کو اپنے دلوں میں زندہ کریں۔ ہمارے پاس ماضی کی شاندار روایات ہیں اور مستقبل کی لامحدود امکانات، اب صرف ایک چیز درکار ہے: وہ عزم جو تاریخ کو دہرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔