Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Ashraf Sharif/
  3. Naya Ipps Moahida, Kuch Matlab To Akhaz Kijiye Meharban

Naya Ipps Moahida, Kuch Matlab To Akhaz Kijiye Meharban

عمران خان نے طے کیا ہے کہ وٹے مارنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔ حیرت تھی کہ حکومت نے مریم نواز اور ان کے فتنہ بریگیڈ کو چھوٹ کیوں دی، یوم آزادی کے موقع پر دیکھا کہ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے پرچم کشائی کی ایک تقریب میں اپنے کارکنوں سے ملک کی خدمت کا حلف لیا۔ خدمت میں یہ کام بھی شامل ہے کہ عمران خان کی حکومت نے اپنی نااہلی سے قومی اداروں کا جو ستیا ناس کیا ہے مسلم لیگی حکومت آنے پر یہ خرابیاں دور کی جائیں گی۔ حلف میں حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری کا ذمہ دار قرار دے کر غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ نیا معاہدہ ہونے کی خوشخبری سنائی۔ اس نئے معاہدے سے 3ہزار ارب روپے کی بچت ہو گی جس کا فائدہ صارفین کو منتقل کیا جائے گا۔ گھروں میں بجلی کے بل کم آئیں گے اور صنعتی پیداوار کی لاگت کم ہو گی۔ اہم بات یہ کہ ریاست کی رٹ مستحکم ہو گی۔ نجی پاور کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں فوری طور پر 600ارب روپے دیے جائیں، ممکن ہے نئے معاہدے پر حتمی دستخط ہونے کے بعد کمپنیوں کو یہ چھ سو ارب کی رقم دیدی جائے لیکن اس معاہدے کی تکنیکی شرائط کو پڑھنے کے بعد حیرت ہوئی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے ملک کو بڑے نقصان سے بچانے کے لئے عمران خان کی طرح کیوں نہ سوچا۔ پاکستان میں انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز نے جتنے پلانٹ لگائے وہ 1999ء اور 2002ء کی پالیسی کے تحت چل رہے ہیں۔ لگ بھگ تمام کمپنیاں مقامی سرمایہ کاروں کی ہیں لیکن کسی تنازع کی صورت میں انہیں یہ سہولت دی گئی کہ وہ لندن میں واقع کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کر سکتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں 2017ء کے دوران ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں کام کرنے والی 9پاور کمپنیوں نے لندن کی ثالثی عدالت سے پاکستان کے خلاف 11ارب روپے کے مقدمات جیتے، عدالت نے حکومت پاکستان کو پابند کیا کہ وہ ان کمپنیوں کو 3ارب روپے سود کی رقم بھی ادا کرے۔ بات یہاں تک نہیں رہی بلکہ مقدمات پر آنے والے اخراجات کی مد میں 60کروڑ روپے بھی حکومت پاکستان نے ان کمپنیوں کو ادا کیے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے معاہدے کرتے وقت اس بات کو اہمیت ہی نہیں دی کہ قانونی کارروائی کی صورت میں مقامی عدالت کا آپشن رکھا جاتا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ عالمی عدالتیں کبھی سرمایہ کاروں کے خلاف فیصلہ نہیں دیتیں۔ نئے معاہدے میں یہ شرط شامل کی جا رہی ہے کہ کھاتوں کے جائزے کے بعد واجبات کی ادائیگی یا وصولیوں کے معاملات میں نیپرامجاز اتھارٹی ہو گی۔ فروری 2020ء میں کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے لگیں۔ امریکہ کی تیل کمپنیوں کی حالت یہ ہو گئی کہ ان کے ذخیرے بھر گئے اور قیمت منفی درجے میں آ گئی۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے پر تیل خرچ ہوتا ہے۔ کئی ضروری صنعتوں اور ناگزیر ٹرانسپورٹ میں بھی پٹرول استعمال ہو رہا ہے لہٰذا ہمیں طلب میں کمی کا سامنا تو ہوا لیکن یہ نہیں ہوا کہ تیل کی قیمتیں منفی ہو جائیں۔ پھر تیل مافیا نے مل ملا کر امپورٹ بند کر دی جس کا نقصان یہ ہوا کہ تیل کے نرخ 75روپے فی لٹر تک ہو گئے مگر پٹرول غائب ہو گیا۔ اس وقت حکومت نے بجلی کے نرخوں میں معمولی کمی کی۔ عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ حکومت تیل کی قیمتیں کم ہونے کے تناسب سے بجلی سستی نہیں کر رہی۔ یہ شکایت بجا تھی لیکن حکومت چونکہ آئی پی پیز سے مہنگی بجلی خرید رہی تھی لہٰذا نرخوں میں قابل ذکر کمی ممکن نہ تھی۔ بجلی کمپنیوں نے سستا تیل خریدا اور مہنگی بجلی بیچی۔ سابق حکومتوں کے دور میں کئے گئے معاہدوں میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو گی تو کمپنیاں حکومت کو کم نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کی پابند ہوں گی سارا منافع، شاید کھربوں میں ہو، کمپنیوں کی جیب میں چلا گیا۔ نئے معاہدے میں یہ شق شامل کی جا رہی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے جو فائدہ ہوگا وہ صارفین کو منتقل کردیا جائے گا۔ شنید ہے کہ اس معاہدے میں بہت سی سیاسی قوتیں رکاوٹ تھیں، کئی سابق حکمران اور ان کے قریبی لوگ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ خرابیوں کے خلاف قانونی عمل شروع کردیا جائے۔ ایسا ہوتا تو یہ لوگ جمع ہو کر نیب دفتر پر وٹے پھینکتے اور ایک دوست ملک ناراض ہو جاتا جو اس حوالے سے مدد کرنے کو تیار تھا۔ حکومت نے اچھا کیا دوست ملک کی بات مان لی اور اس کو درمیان میں ڈال کر ایک نئے معاہدہ پر سب کو راضی کرلیا۔ حکومت کی حکمت عملی تبدیل ہورہی ہے۔ سارا فوکس معاشی بحالی پر ہے۔ اس حکمت عملی کا ان اپوزیشن رہنمائوں کو یہ فائدہ ہوسکتا ہے کہ انہیں کرپشن کے مقدمات کے سلسلے میں کلی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کرنا ہوگا۔ ممکن ہے وہاں ان کے کچھ سابق وفادار انہیں رعایت دے سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے دور حکومت میں کرپشن، اقربا پروری اور دوست نوازی سے تنگ اہلکاران کے گرد شکنجہ مزید تنگ کردیں۔ حکومت آگے بڑھنا چاہتی ہے، آئی پی پیز سے معاہدہ گردشی قرضوں کے خاتمہ، لندن ثالثی عدالت کا کردار ختم کرنے، تیل کی قیمتوں میں کمی کے فوائد عوام کو منتقل کرنے، ادائیگیاں ڈالر کی بجائے روپے میں کرنے، لیٹ سرچارج میں 2.5 فیصد کمی اور حکومت کو پاور پلانٹس کے معائنے کی اجازت دے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کے اس فیصلے پر سب کی خاموشی کا کچھ مطلب تو اخذ کیجئے مہربان۔ ٭٭٭٭٭