Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Ashraf Sharif/
  3. Karvi Goli, Mehangi Goli

Karvi Goli, Mehangi Goli

ہارورڈ ایجوکیشن گزٹ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا میں ہر سال ایک لاکھ کے قریب افراد صرف اس وجہ سے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس ادویات خریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔ 50 لاکھ لوگ غیر معیاری صحت کی سہولیات کے باعث ہرسال مرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومتوں نے کبھی ریکارڈ رکھنے میں دلچسپی نہیں لی اس لیے معلوم نہیں کہ کتنے مریض ادویات نہ خرید پانے کی وجہ سے جان گنوا دیتے ہیں لیکن بڑے ہسپتالوں کے سامنے میڈیکل سٹورز پر ہر روز بیسیوں افراد روتے نظر آتے ہیں۔

حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں 7سے 10فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ عوامی حلقوں کے ردعمل پر حکومتی ترجمان بتا رہے ہیں کہ اضافہ حکومت نے نہیں فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے کیا ہے۔ گویا فلور ملز کی طرح فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے بھی ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ جو وزیر اعظم عمران خان اور معاون خصوصی برائے صحت کو اندھیرے میں رکھ کر فیصلے کرتی ہے اور پھر سرکاری کارندے ازقسم ڈرگ انسپکٹر فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی ہدایت پر ادویات کے نرخوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ عوام تو کلے سے بندھے وہ بے بس ہیں جو بندر بن کر دونوں طرف سے مار کھا رہے ہیں۔

کسی ریاست کے استحکام کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ شہریوں کو ان کی آمدن کے مطابق صحت کی سہولیات دستیاب ہوں۔ ذرا اندازہ لگائیے مزدوری یا نچلے درجے کے کام کرنے والے 8کروڑ پاکستانیوں کی ماہانہ آمدن بارہ ہزار سے کم ہے۔ اتنی آمدن بھی مستقل نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کے گھر میں اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو وہ کس ہسپتال سے علاج کرا سکے گا۔ کورونا کے دن ہیں۔ پرائیویٹ ٹیسٹ 9ہزار کا ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت ہے لیکن باری نہیں آتی۔ خون کے ٹیسٹ، سینے کا ایکسرے اور باقی معاملات پر مزید خرچ ہو جاتا ہے۔ علاج اور ادویات کا مرحلہ تو بہت بعد میں آتا ہے۔ کیا اس آمدن والا یہ اخراجات برداشت کر سکتا ہے؟ جب بھوک اور علاج کے مسائل کا حل نہیں مل پاتا تو پھر بیوی بچوں سمیت کسی نہر میں کود کر خودکشی کر لیتا ہے۔

کچھ دلچسپ معلومات سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہماری حکومتیں اور فیصلہ کرنے والے افراد عوام پر کیا کیا ظلم کر رہے ہیں۔ حالیہ برس مارچ اپریل میں ادویات کی قیمتوں میں غیر قانونی طریقے سے اضافہ کر دیا گیا۔ بتایا گیا کہ وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی ذمہ دار اس اضافے سے لاعلم رہے۔ ڈرگ پرائس پالیسی 2018ء کے تحت فارما سیوٹیکل کمپنیوں کواجازت دی گئی کہ وہ مہنگائی کی شرح میں اضافے کے تناسب سے ادویات کے نرخوں میں سالانہ اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس بار فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے چالاکی یہ کی کہ جولائی سے قبل ہی کورونا کی وبا کو آڑ بنا کر قیمتیں بڑھا دیں۔ 16جولائی 2020ء کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ادویات کی قیمتوں کا ریکارڈ نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ایک خط کے ذریعے ادویہ ساز اداروں سے قیمتیں مقرر کرنے کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ڈریپ کے پاس سابق قیمتوں کا ریکارڈ نہیں تو اسے کیا معلوم کون سی دوا کا نرخ کتنا بڑھایا گیا۔ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو حکومت کی اس کمزوری کا علم ہے۔ 2019ء میں ادویات کی قیمتوں میں 200فیصد اضافہ کیا گیا تو ڈریپ نے اسی طرح کا خط لکھ کر کمپنیوں سے ریکارڈ طلب کیا مگر کسی کمپنی نے قیمتوں کا ریکارڈ نہ دیا۔ مزید حیرت کہ ڈریپ نے ایسی کسی کمپنیوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی بھی نہ کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیا اور 72گھنٹوں میں قیمتیں کم کرنے کی ہدایت کی۔ ایک سال گزر چکا لیکن ابھی تک وزیر اعظم کی ہدایت پر کسی کمپنی نے عمل نہیں کیا۔

ڈریپ نے 8سو 11ایلو پیتھک کمپنی سے قیمتوں کا ریکارڈ مانگا ہے۔ 1976ء کے ڈرگ ایکٹ کے سیکشن 8کے تحت قیمتوں کا ریکارڈ رکھنا اور مشتہر کرنا ڈریپ کی ذمہ داری ہے۔ ایک سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں کنزیومر پرائس انڈکس کی آڑ میں دوسری بار اضافہ کر کے منظوری لی گئی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ حکومت ریاست کے اختیارات کی امین ہے۔ 60فیصد شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت ان کے لئے صحت کی سستی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے مافیاز کی مددگار بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم اے ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ مریضوں کے مفادات کا بھی تحفظ کرتی ہے۔ ڈاکٹر اشرف نظامی کی طرح ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر سلمان کاظمی بھی اس صورت حال پر خاصے ناخوش دکھائی دیے۔ انہوں نے ادویات کی رجسٹریشن کے لئے 180دن کی مدت کو کرپشن کی بنیاد قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مالکان سرکاری حکام سے ملے ہوئے ہیں اور ڈریپ کا ریکارڈ شفاف نہیں، اس کے کام کرنے کے ایس او پیز معیاری نہیں۔ ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے صدر نور مہر نے ڈریپ پر ریکارڈ غائب کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک سالٹ ایک قیمت کا فارمولا نافذ ہونا چاہیے۔

جناب وزیر اعظم دیہاڑی دار کو روٹی کے ساتھ علاج بھی چاہیے۔ آپ کے گرد وہ لوگ محاصرہ کر چکے ہیں جو 12ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کے دکھ نہیں جانتے۔ فیصلوں میں تاخیر کر کے روپیہ بنایا جا رہا ہے کیا وقت آ نہیں گیا کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی من مانی کو نکیل ڈالی جائے اور ڈریپ کے معاملات میں شفافیت لائی جائے۔ ان سابق اور موجودہ افسران کے اثاثوں، کاروبار اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے کمیشن لینے کی تحقیقات کرائی جائیں جو ادویات کی منظوری اور قیمتوں میں اضافے کے معاملات میں شامل رہے ہیں۔