Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Ashfaq Ullah Jan Dagai/
  3. Fatah Mubeen (2)

Fatah Mubeen (2)

جب روس افغانستان پر چڑھ دوڑا تو صدر جنرل ضیاء الحق نے افغان جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلہ درست تھا۔ ویسے بھی ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اگر روس کو افغانستان میں شکست نہ دی جاتی تو وہ بلوچستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر لیتا اور ہم دیکھتے رہ جاتے۔

مجاہدین روسی استعمار کے خلاف برسرپیکار رہے اور انھوں نے سرخ انقلاب کو افغانستان کی وادیوں میں غرق کر دیا، سویت یونین ٹوٹ گیا۔ روس کو شکست دینے میں بنیادی کردار افغانیوں کا ہے، انھیں نے پندرہ لاکھ جانوں کی قربانیاں دیں۔ روس کے جانے کے بعد افغانستان باہمی خانہ جنگی کا شکار ہوکر رہ گیا۔

باہمی خانہ جنگی میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون رائیگاں جاتا دیکھا تو ملا محمد عمر میدان عمل میں اترے، انھوں نے تدریس کے سلسلے کو منقطع کر دیا اور افغانستان کے طول و عرض میں قائم دینی مدارس کا دورہ شروع کر دیا، ان کے ان دوروں کا مقصد طلبہ پر مشتمل ایک ایسی جماعت تیار کرنا تھا جسے آنے والے وقتوں میں تحریک اسلامی طالبان کا نام دیا جاسکے، ملا محمد عمر نے ایک دوست سے موٹرسائیکل ادھار لی اور ایک ساتھی کو ساتھ بٹھاکر اپنے عظیم مشن پر چل نکلے اور ایک مدرسے میں جاپہنچے، جہاں 14 طالب علم سبق پڑھ رہے تھے، ان سب کو جمع کیا اور ان سے بات کی کہ" اللہ کا دین پامال ہورہا ہے اور کچھ لوگوں نے اس کو ایسا بنادیا ہے کہ دوسرے لوگ بھی برباد ہورہے ہیں۔

برے بنتے جارہے ہیں، ایک مخصوص طریقے سے مسلمان تباہ کیے جارہے ہیں۔ یہ لوگ دوسرے مسلمانوں کو بھی فسق و فجور کا عادی بنا رہے ہیں اور فسق کو عام کرکے جاری رکھنا چاہتے ہیں، جرائم پیشہ لوگ تمام علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں، راہزنی اور لوٹ مار جاری ہے، ہر راستے پر لوگوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں، لوگوں سے مال زبردستی چھین لیا جاتا ہے اور قتل ہورہے ہیں۔ ظلم و ستم کے ایسے ماحول میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ اس انداز سے زندہ باد یا مردہ باد کے نعروں سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

ہم آپ سے کہتے ہیں کہ اگر آپ دین کا علم واقعی اللہ کی رضا کے لیے حاصل کررہے ہیں تو اللہ کی رضا ہی کے لیے اب آپ کو یہ سلسلہ چھوڑنا ہوگا اور اب یہ تعلیم جاری نہیں رہے گی۔ ہم سے کسی نے پیسے کا وعدہ نہیں کیا، ہم اپنے وطن کے مسلمانوں سے روٹی مانگیں گے، معلوم نہیں وہ روٹی دیں گے بھی یا نہیں؟ ہمیں پھر پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملے گا، کیوں کہ یہ کام ایک دن ہفتے کا نہیں اور نہ مہینے یا سال کا ہے۔

یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ تبدیلی کسی کے بس کی بات بھی ہے یا نہیں؟ جب یہ فاسق اور فاجر لوگ اس شدید گرمی میں ان گرم پتھروں پر بیٹھ کر اللہ کی نافرمانی اور اللہ کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں اور کھلے عام یہ کام کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو علانیہ نہیں کرسکتے؟ ۔ آپ لوگ اتنی غفلت نہ برتیں اور اتنی بے حمیتی کا مظاہرہ نہ کریں "۔ ایک مدرسے سے نکل کر دوسرے اور دوسرے سے نکل کر تیسرے میں جاپہنچے۔ ہر جگہ طلبا کو قائل کرنے کے لیے یہی گفتگو کی۔

ملا محمد عمر اسی طرح موٹرسائیکل پر گھومتے رہے، حتیٰ کہ عصر تک انھوں نے53 افراد کو اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کر لیا اور دنوں میں یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ ملا محمد عمر کی سربراہی میں طالبان نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے افغانستان پر حکومت قائم کر لی۔ طالبان کا دور حکومت 1995 سے2001 تک تقریباً 6 سال کے عرصے پر محیط رہا، اس دوران میں ان کا زیادہ تر وقت اپنے حریف شمالی اتحاد سے جنگ میں گزرا۔

طالبان نے اپنے دور میں افغانستان کو انصاف کی بروقت فراہمی اور امن و امان کی مثالی صورت حال دی۔ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں شہر اور شاہراہوں کو محفوظ بنادیا گیا تھا۔ پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی تھی، تمام غیر قانونی ٹیکس اور چنگیاں ختم کردی گئی تھیں جن کے باعث آمدورفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ شیخ الحدیث حضرت مولاناحمد اللہ جانؒ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے دور خلافت کو کتابوں میں پڑھا اور اس کی عملی تفسیر کابل میں جاکر دیکھی۔

ملامحمد عمر کے دور میں انھیں افغانستان کی اعزازی شہریت دی گئی اور انھیں اکثر جامعہ فاروقیہ جیسے عظیم الشان مدارس میں پڑھانے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ ڈیڑھ سال تک ریڈیو شریعت سے حضرت جی کا تفسیر قرآن اور بخاری شریف کے دروس براہ راست نشر ہوتے رہے۔ اس دور میں ہونے والی آخری دستار بندی میں ایک ہزار سے زائد فارغ التحصیل ہونے والوں کی دستار بندی ہوئی۔ افغانستان میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں حضرت جی کے شاگرد نہ ہوں۔

دوحہ مذاکرات کے روح رواں اور طالبان کے ترجمان مولانا امیر متقی بھی آپ کے شاگردوں میں سے ہیں، حضرت جی جب بھی افغانستان جایا کرتے تھے ان کا قیام مولانا امیر متقی کے گھر ہی ہوتا تھا۔ اس دوران امیر متقی کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو ان کی والدہ نے حضرت جی سے درخواست کی کہ آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے پوتے کا نام آپ کے نام پر رکھ لوں؟ ، افغانستان طالبان کا میرے والد صاحب سے عقیدت کا یہ رشتہ تھا۔

طالبان کے دور کا افغانستان حقیقی معنوں میں مدینہ طرز کی ریاست کی عملی تصویر تھی۔ ایک تباہ شدہ ملک مدینہ طرز کی ریاست کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ہر طرف امن کا پھریرا لہرا رہا تھا، خوشحالی کا دور دورا تھا لیکن اس عظیم ریاست پرطاغوتی طاقتوں کی نظر تھی، وہ کسی صورت اسے چلنے نہیں دینا چاہتی تھیں۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ کے تعاقب میں امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک آزاد اور خود مختار ملک پر حملہ کردیا، پاکستان میں اس وقت کی مشرف حکومت نے امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ تھا جس کا خمیازہ ہمیں نہایت خوفناک انداز میں بھگتنا پڑا۔

2001 میں امریکا نے جو لڑائی افغانستان میں شروع کی تھی، یہ لڑائی طالبان کا انتخاب تھی نہ ہی افغان عوام اس کے خواہشمند تھے، اسے تو امریکا نے افغانستان پر مسلط کیا تھا۔ بدمست ہاتھی کی طرح امریکا پوری طاقت، غرور اور ساری دنیا کو ساتھ لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور خود ایک آزاد ملک پر قابض ہوکر بیٹھ گیا۔ 18سال تک جاری رہنے والی یہ لڑائی دوحہ امن معاہدے کی صورت میں اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔

بدمست ہاتھی طالبان کے ہاتھوں دھول چاٹنے پر مجبور ہوگیا اور اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے آئندہ 14 ماہ میں افغانستان سے نکل جائے گا۔ اب یہاں سے ایک بار پھر افغانیوں کے کڑے امتحان کا وقت شروع ہورہا ہے۔ اللہ انھیں عقل اور ہوش کے ناخن دے تاکہ وہ حکمت کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایک بار پھر افغانستان مدینہ طرز کی حقیقی ریاست بنے، جس کی روشنائی سے سارا عالم اسلام روشن ہو اور جس کی خوشبو سے سارا جہان مہکے لیکن جس روز سے امن معاہدہ ہوا ہے تب سے آج تک کوئی دانشمندانہ اقدام دکھائی نہیں دیا۔ آج کابل میں دو افراد نے بیک وقت ملک کے نئے صدر کے طور پر "حلف" لیا۔

ایک کا نام اشرف غنی اور دوسرے عبداللہ عبداللہ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے طور پر افغانستان کا نیا صدر ہونے کا دعویٰ کیا اور حلف بھی اٹھا لیا۔ چند ہفتے قبل افغان الیکشن کمیشن نے معمولی اکثریت سے اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا تھا لیکن عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، اس منظرنامے میں افغانستان کی ایک بڑی حقیقت " طالبان" کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، دنیا کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ موجودہ افغانستان وہ افغانستان نہیں ہے جسے روس چھوڑ کر گیا تھا اور نہ ہی موجودہ دور کے طالبان پہلے والے طالبان ہیں۔

18سال کی ستم ظریفیوں، اپنوں اور بیگانوں کی دی ہوئی اذیتوں نے انھیں بہت کچھ سکھا دیا ہے، وہ آج جہاں سیاسی داؤ پیچ سے بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں وہاں بین الاقوامی تعلقات میں بھی مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ اس لیے آج افغانستان کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانا اور اپنے وطن کو دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان کے عوام اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی خیرخواہ کوئی قوت ہے تو اس کا نام امارت اسلامیہ ہی ہے۔ اسی لیے پاکستان ہی نہیں پوری امت مسلمہ افغان طالبان کی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہے۔ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ افغان عوام ایک بار پھرامارت اسلامیہ پر اعتماد کا اظہار کریں گے اور وہی اپنے امیر ملا ہیبت اللہ اخوند کی سربراہی میں اس تباہ حال گلشن کی نوک پلک سنواریں گے اور اسے ایک بار پھر مہکتا ہوا گلشن بنائیں گے۔