Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Ashfaq Ullah Jan Dagai/
  3. Bahir Waba Ka Khauf, Andar Balaa Ki Bhook

Bahir Waba Ka Khauf, Andar Balaa Ki Bhook

کورونا کی وباء پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہے اور دنیا بھر کے لاک ڈاون کا سبب بنی ہوئی ہے، اب تک تیس لاکھ سے زائد افراد میں اس وباء کا شکار ہوچکے ہیں، یہ وائرس لگ بھگ سوا دو لاکھ افراد کو موت کی نیند سلا چکا ہے۔ پاکستان میں 14 ہزار سے زائد کورونا کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد بھی تین سو کا ہندسہ عبور کرگئی ہے۔

خدا جانے اس وباء سے کب نجات ملے گی، دنیا بھر کے ماہرین ریسرچ کررہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وباء کی شدت کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے جو جون کے پہلے ہفتے تک برقرار رہے گا، پھر اس کی شدت کم ہونا شروع ہوگی۔ سنگاپور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن(SUTD) نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ڈیٹا کے تجزیے سے دنیا بھر کے ممالک میں کووڈ 19 (کورونا وائرس ) کی وباء کے خاتمے کے وقت کی پیش گوئی کی ہے۔

یونیورسٹی کاکہنا ہے کہ پاکستان میں اس وباء پر 8 جون تک 97 فیصد قابو پالیا جائے گا۔ ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اس وباء پر 23 جون تک 99 فیصد اور یکم ستمبر تک سو فیصد قابو پایا جاسکتا ہے۔ یونیورسٹی اپنی اس پیش گوئی کو روزانہ نئے حاصل شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کرتی ہے، یہ تحقیق صرف تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے ہے جس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔

یونیورسٹی کے مطابق عالمی سطح پر اس وبا پر 29 مئی تک 97 فیصد قابو پایا جاسکتا ہے، یہ شرح 17 جون تک 99 فیصد اور 9 دسمبر کو سو فیصد تک پہنچے گی۔ اس وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا میں 11مئی تک 97 فیصد قابو پایا جاسکتا ہے جب کہ سوفیصد کنٹرول 27 اگست تک ممکن ہوگا، یونیورسٹی کے پیش گوئی کے مطابق اٹلی میں 7 مئی، سعودی عرب میں 21 مئی، متحدہ عرب امارات میں 11 مئی، ترکی میں 16مئی، برطانیہ میں 15 مئی، اسپین میں 3 مئی، جرمنی میں 2 مئی، فرانس میں 5 مئی، جاپان میں 18مئی، ایران میں 19 مئی، انڈونیشیا میں 6 جون، ملائیشیا میں 6 مئی، سنگاپور میں 4 جون اور بھارت میں 21 مئی تک اس وبا پر 97 فیصد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سنگاپور کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن اور طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے مئی کو بہت اہم قرار دیاجارہا ہے جس میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں خوفناک زیادہ اضافے کا خدشہ ہے۔

پاکستان کاشمار تیسری دنیا کے ترقی پذیرممالک میں ہوتا ہے جس کی معیشت پہلے ہی شدید دباو کا شکار چلی آرہی تھی، رہی سہی کسر لاک ڈاون نے پوری کر دی۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہا تھا، یہی وہ طبقہ ہے کورونا جس پر کہرام بن کر ٹوٹا۔ 24مارچ سے تادم تحریر بلا تعطل لاک ڈاون نے اس طبقے کے لیے زندگی گزارنا مشکل کردیا ہے۔ غریب، مسکین، محنت کش اور دیہاڑی دار لوگوں کے لیے باہر کورونا کا خطرہ اور اندر بلا کی بھوک ہے۔

محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد محنت کش بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، ان میں سے نوے فیصد افرادی قوت غیر سرکاری یا غیررسمی شعبے سے وابستہ ہے، جن کا کوئی ریکارڈ محکمہ لیبر کے پاس بھی نہیں۔ یہ ہے وہ طبقہ جس کا چولہا لاک ڈاون نے ٹھنڈا کر دیا ہے۔ بے شمار ایسے سفید پوش ہیں جن کے پاس ماہ رمضان میں سحر اور افطار کے لیے راشن تک نہیں۔ محنت کش باپ جب اپنے فاقہ کش بچوں کے منہ کی طرف دیکھتا ہوگا تو جیتے جی مرجاتا ہوگا۔

ایسی صورتحال میں مجبور ہوکر لوگ خودکشیوں کا راستہ اختیار نہ کریں تو کیا کریں؟ ۔ یہ صورتحال صرف حکومتوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں، بلکہ معاشرے کے ہرشہری کے لیے اضطراب کاسبب ہے۔ حکومتیں جیسے تیسے لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہیں، ان کی کارکردگی پر بعد میں بات کرلیں گے کیونکہ یہ وقت ایک دوسرے پر تنقید کا نہیں بلکہ مواخات کا وقت ہے۔ لوگوں کو کورونا کے بعد بھوک سے بچانا سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج میں تنہا حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو کھانا کھلانا حکومت کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی حکومت اتنی بڑی تعداد کو روزانہ کی بنیاد پر راشن مہیا کرسکتی ہے۔ پاکستان تو ایک غریب ملک ہے، یہ کام تو کوئی ترقی یافتہ ملک بھی سرانجام نہیں دے سکتا۔

اس بحرانی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی اپنی جگہ کوشاں ہیں۔ احساس پروگرام کے ذریعے مستحق خاندانوں کو بارہ ہزار روپے ماہانہ دینے کا سلسلہ بھی شروع ہے، سیاسی، دینی اور سماجی تنظیمیں بھی لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن یہ کام ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

شاید سب کا سب تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے اخوت کے سربراہ برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک حل پیش کیاہے اور اس کو انھوں نے "ہمسایہ سے مواخات" کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بحرانی صورتحال کا واحد حل مواخات کے علاوہ کوئی نہیں۔ ایک شخص یا ایک خاندان کو اپناسمجھ لیں، یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے، اگر ہر روز رات کو سونے سے پہلے ہم یقینی بنا لیں کہ ہمارے دائیں بائیں، آس پاس رہنے والا کوئی ہمسایہ بھوکا نہیں سویا تو یقینی طور پر کوئی شخص بھوکا سوئے گا نہ کسی کے لیے نوبت خودکشی تک آئے گی۔

یہ بات ہمیں اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ ہم مدینہ کی ریاست میں نہیں رہتے جہاں امیر المومنین راتوں کو اٹھ اٹھ کر رعایا کی خبر گیری کیا کرتے تھے، اگر کہیں کوئی ایسا خاندان مل جاتا جس کے پاس کھانے کے لیے راشن نہ ہوتا تو اپنی کمر پر بوری لاد کر مستحقین تک پہنچایا کرتے تھے اور التجا کرتے تھے کہ میری شکایت اللہ سے مت کرنا۔ کاش ہمارا ملک مدینہ طرز کی ریاست بنے اور ہمیں بھی خوف خدا رکھنے والے حکمران میسر آئیں۔

ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں کے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں کہ وہ شہروں، قصبوں اور محلوں میں جا جاکر لوگوں کے گھروں پر دستک دیں اور کھانا پہنچائیں لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ہم ایک اچھا ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے یہ کام ضرور کرسکتے ہیں۔ گویا مواخات اور بھائی چارے کے زریں اصول اپناتے ہوئے ہمارا معاشرہ خود ہی کم وسائل رکھنے والے افراد کو اپنی پناہ میں لے سکتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق اس طرز عمل کے بارے میں لوگوں کو بتانا بھی مشکل نہیں۔ ہر گلی محلیکی مسجد کو مرکز بنایا جاسکتا ہے۔

ہر نماز سے پہلے اور نماز کے بعد امام صاحب یہ اعلان کردیں کہ ہرشخص کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا یقین کرلے کہ اس کاہمسایہ کل رات بھوکا تو نہیں سویا۔ نماز سے جڑی ہوئی اس دعوت فکر پر کون توجہ نہیں دے گا؟ کسی ایسے شخص کا نمازروزہ اور دیگر عبادات کی سیقبول ہوں گی جس کا ہمسایہ بھوکارہا۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر عمل کرکے ہم لوگوں کو بھوک کی وجہ سے مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسی بحرانی کیفیت نہیں دیکھی، جب حالات غیر معمولی ہیں تو ایثار کا جذبہ بھی غیرمعمولی ہونا چاہیے۔

ویسے بھی ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے، اللہ کریم نے اس ماہ مبارکہ کی برکت سے نیکیوں کا اجر بڑھا رکھا ہے، ہر صاحب ثروت مسلمان کو دل کھول کر مستحق افراد کی مدد کرنی چاہیے اورزیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔ یہی زندگی کی وہ حقیقی دوڑ ہے جو رب تعالی کی رضا اور خوشنودی کا سبب بنے گی۔