Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Syed Badar Saeed
  4. Social Media Regulatory Authority

Social Media Regulatory Authority

دنیا ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں بچے اور نوجوان کتابوں، گلیوں اور کھیل کے میدانوں سے پہلے موبائل سکرین سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب محض رابطے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ خیالات، رویّوں، خواہشات اور کردار سازی کا طاقتور ہتھیار بن چکا ہے۔ اسی لیے دنیا کے کئی ممالک خصوصاً آسٹریلیا، یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک نوجوانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر نئے قواعد متعارف کرا رہے ہیں۔ کہیں عمر کی حد مقرر کی جا رہی ہے، کہیں سکرین ٹائم محدود کیا جا رہا ہے اور کہیں والدین کی اجازت کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات محض قدامت پسندی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ سماجی تشویش کا اظہار ہیں، جس کا تعلق ذہنی صحت، اخلاقی اقدار، پرائیویسی اور جرائم سے ہے۔

پاکستان میں یہ مسئلہ کہیں زیادہ پیچیدہ اور حساس صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اندازوں کے مطابق ملک میں کروڑوں افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کر رہے ہیں جن میں نمایاں تعداد نوعمروں کی ہے۔ یہ نوجوان ایک ایسی ڈیجیٹل دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں مواد کی کوئی واضح اخلاقی سرحد نہیں، جہاں چند سیکنڈز کی ویڈیو پوری سوچ کا رخ بدل سکتی ہے اور ایک غلط کلک زندگی بھر کا بوجھ بن سکتا ہے۔ فحاشی، نازیبا مواد، جعلی پروفائلز، آن لائن ہراسانی اور بلیک میلنگ جیسے جرائم نے نہ صرف کئی خاندانوں کو متاثر کیا بلکہ کئی زندگیاں خاموشی سے برباد بھی کی ہیں۔

سرکاری اداروں کے اعداد و شمار اور سائبر کرائم کے کیسز اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ ہر سال ہزاروں شکایات آن لائن بلیک میلنگ، خواتین اور کم عمر لڑکیوں کی ویڈیوز کے غلط استعمال اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ہراسانی سے متعلق درج ہوتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے کیسز کی ہوتی ہے جو یا تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا سماجی دباؤ کے باعث انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ صرف قانون نافذ کرنے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی اور نفسیاتی بحران ہے جس کی جڑیں بے لگام ڈیجیٹل آزادی میں پیوست ہو چکی ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اس چیلنج کو محض انفرادی مسئلہ سمجھنے کے بجائے ریاستی ذمہ داری تسلیم کیا ہے۔ آسٹریلیا میں کم عمر بچوں کے لیے مخصوص سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی یا سخت نگرانی کی بحث اسی تناظر میں سامنے آئی۔ وہاں دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ جس طرح ریاست جسمانی تحفظ کے لیے قوانین بناتی ہے اسی طرح ذہنی اور اخلاقی تحفظ کے لیے بھی حدود کا تعین ضروری ہے۔ سوال یہ نہیں کہ آزادی سلب کی جا رہی ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کس عمر میں کس نوعیت کی آزادی نقصان دہ بن جاتی ہے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے ڈیجیٹل دنیا آج بھی ایک نیم منظم اور ردِعمل پر مبنی نظام کے تحت چل رہی ہے۔ کسی واقعے کے بعد شور اٹھتا ہے، گرفتاری ہوتی ہے، بیان آتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ مستقل پالیسی، جامع ریگولیٹری فریم ورک اور واضح ڈیجیٹل اخلاقیات کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک طرف اظہارِ رائے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف فحاشی، نفرت انگیزی اور بلیک میلنگ کی آماجگاہ بھی بنتا جا رہا ہے۔

یہاں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ پاکستان میں ایک بااختیار، خودمختار اور پیشہ ور ڈیجیٹل ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے جو محض مواد ہٹانے یا اکاؤنٹ بند کرنے تک محدود نہ ہو بلکہ پالیسی سازی، نگرانی، آگاہی اور تحفظ کے چاروں پہلوؤں پر بیک وقت کام کرے۔ ایسی اتھارٹی جو سوشل میڈیا کمپنیوں کو جوابدہ بنائے، کم عمر صارفین کے لیے واضح حفاظتی معیارات طے کرے اور فحاشی و بلیک میلنگ کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی صلاحیت رکھتی ہو۔

اس ریگولیٹری نظام کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اختلافِ رائے یا تنقید کو دبایا جائے بلکہ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ کمزور طبقات خصوصاً نوجوانوں اور خواتین کو ڈیجیٹل تشدد سے بچایا جائے۔ واضح قوانین، تیز انصاف اور ٹیکنالوجی سے لیس تحقیقاتی نظام ہی وہ راستہ ہے جس سے اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ متاثرہ فرد کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہاں جائے، کس سے فریاد کرے اور کتنا وقت لگے گا۔ یہی بے بسی مجرم کو طاقت دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی والدین، تعلیمی اداروں اور میڈیا کی ذمہ داری بھی غیر معمولی ہے۔ محض قانون بنا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک ڈیجیٹل شعور عام نہ ہو۔ سکولوں اور کالجوں میں ڈیجیٹل اخلاقیات، آن لائن تحفظ اور پرائیویسی سے متعلق تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خاموشی سے موبائل پکڑا دینا سہولت تو ہو سکتی ہے مگر حفاظت نہیں۔

سوشل میڈیا نہ مکمل خیر ہے نہ مکمل شر، یہ ایک طاقت ہے اور طاقت کا اصول ہے کہ اگر اسے نظم و ضبط نہ دیا جائے تو یہ تباہی کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان آج جس سماجی دباؤ، اخلاقی انتشار اور نفسیاتی الجھنوں سے گزر رہا ہے اس میں ڈیجیٹل بے قاعدگی ایک بڑا عنصر بن چکی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو آنے والی نسلیں اس کی قیمت کہیں زیادہ بھاری ادا کریں گی۔

وقت آ چکا ہے کہ ہم آزادی اور تحفظ کے درمیان توازن قائم کریں، جذباتی نعروں کے بجائے حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائیں اور ڈیجیٹل دنیا کو قانون، اخلاق اور انسان دوستی کے دائرے میں لائیں۔ یہ صرف ریاست کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بقا کا سوال ہے۔