Friday, 22 August 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Syed Badar Saeed
    4. Sahafiyon Ke Liye Mutabadil Rozgar

    Sahafiyon Ke Liye Mutabadil Rozgar

    پاکستان میں روایتی صحافت کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ پچھلے ہفتے ایک بڑے میڈیا ہائوس نے اچانک اپنا اخبار بند کیا اور تمام عملے کو برطرف کر دیا۔ یہ نئی بات نہیں، پچھلے کئی برس سے یہی ہو رہا ہے۔ اخبارات بند ہو رہے ہیں، نیوز چینلز تنخواہیں کم کر رہے ہیں اور سیکڑوں صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں۔ جن صحافیوں نے صحافت کو صرف نوکری نہیں بلکہ مشن سمجھ کر اپنایا تھا وہ شدید بے یقینی کا شکار ہیں۔

    پریس کلب کی بیٹھک میں یہی سننے کو ملتا ہے: "اب کیا کریں؟ کہاں جائیں؟" ایسے میں ڈیجیٹل میڈیا ایک نئی امید بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ نہ صرف متبادل روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ صحافیوں کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے کا ایک مضبوط پلیٹ فارم بھی ہے۔ آج یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ٹوئٹر (اب X) اور بلاگنگ ویب سائٹس جیسے پلیٹ فارمز نے خبر اور تجزیے کے پرانے انداز کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔

    پہلے ایک خبر صرف اخبار یا ٹی وی کے ذریعے عوام تک پہنچتی تھی، اب کوئی بھی فرد اپنے موبائل فون سے براہِ راست نشریات پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ اگر ایک عام نوجوان یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو کئی سال نیوز روم میں گزارنے والے تجربہ کار صحافی کیوں پیچھے رہیں؟ شرط صرف ایک ہے کہ وہ نئی مہارتیں سیکھنے اور خود کو بدلنے کے لیے تیار ہوں۔ بیروزگاری اور بے یقینی کے اس موسم میں بھی اگر آج کا صحافی چاہے تو اپنا یوٹیوب چینل بنا سکتا ہے، فیس بک پر نیوز ویڈیوز یا تبصرے شروع کر سکتا ہے، میڈیم یا سب اسٹیک جیسی بلاگنگ سائٹس پر اپنی تحریریں شائع کر سکتا ہے یا پوڈکاسٹ کے ذریعے اپنی آواز کو دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی بھی کام کے لیے کروڑوں روپے کا کیمرہ یا بڑا میڈیا آفس درکار نہیں۔

    صرف ایک موبائل فون، انٹرنیٹ، سیکھنے کی لگن اور مسلسل کام کرنے کا جذبہ چاہیے۔ ابھی زیادہ تر نوجوان ہی اس میدان میں سرگرم ہیں جبکہ ایسے تجربہ کار صحافی جن کے پاس اصل مہارت اور فہم ہے وہ بدقسمتی سے اب بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کامیابی راتوں رات نہیں ملتی لیکن یہاں آزادی ضرور ہے۔ اگر کسی رپورٹر کی خبر ادارہ دبا دیتا ہے، تو وہ اسے اپنی ویب سائٹ یا یوٹیوب چینل پر شائع کر سکتا ہے۔

    اگر کوئی اینکر کسی چینل پر سیاسی دباؤ کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کر سکتا، تو وہ اپنی بات بغیر رکاوٹ اپنے سوشل میڈیا پر کر سکتا ہے۔ مگر اس آزادی کے لیے کچھ بنیادی چیزیں سیکھنا ضروری ہیں، جیسے کہ آن لائن پلیٹ فارمز کی سمجھ (ڈیجیٹل لٹریسی) ہو، یوٹیوب چینل بنانا اور مونیٹائز کرنا آتا ہو، فیس بک ایڈز اور انسٹاگرام ریلز کے استعمال کا علم ہو، تھمب نیل ڈیزائننگ اور SEO کا فہم ہو، ویڈیو ایڈیٹنگ سافٹ ویئرز کے کم از کم بنیادی استعمال کا علم ہو۔ ذاتی برانڈنگ سے لے کر اور ایک مخصوص موضوع (niche) کا انتخاب کرنا آتا ہو۔

    یہ تمام مہارتیں دو سے تین ماہ میں آسانی سے سیکھی جا سکتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو پہلے ہی صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی تین ماہ انسان کو کامیاب بنانے کے لیے کافی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنا دوسروں کی نسبت آسان ہے کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی تحقیق، لکھنے اور تجزیہ کرنے کا تجربہ موجود ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سابقہ عدالتی رپورٹر اگر قانونی مسائل پر ویڈیوز بنائے تو لوگ یقین سے سنیں گے۔ کرائم رپورٹر اگر جرائم کی حقیقی کہانیاں سنائے تو لوگ دلچسپی سے سنیں گے۔

    ایک سینئر تجزیہ کار اگر ملکی سیاست پر عام فہم تبصرہ کرے تو بہت جلد اپنا مستقل ناظرین حاصل کر لے گا۔ شوبز، کامرس اور دیگر بیٹس رپورٹر بھی اپنے شعبے تک محدود رہ کر زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بہت سے صحافی پوچھتے ہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا سے کمائی کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب سیدھا ہے کہ یوٹیوب ویڈیوز پر اشتہارات ملتے ہیں، لوکل سطح پر سپانسرشپ اور برانڈ ڈیلز ہو جاتی ہیں۔ فیس بک ریلز سے بھی آمدن ہوتی ہے، بلاگز پر اشتہار یا سبسکرپشن ماڈلز مددگار ثابت ہوتے ہیں اس کے علاہ ڈیجیٹل جرنلزم پر آن لائن کورسز یا ٹریننگ بھی شروع کرائی جا سکتی ہیں۔

    صحافی ذاتی نیوز ویب سائٹ یا ڈیجیٹل میڈیا ہائوس کا آغاز بھی کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا صرف نوجوانوں کے لیے نہیں بلکہ سینئر صحافیوں کے لیے بھی بہت سے مواقع لے کر آیا ہے۔ فرق صرف ذہن کی تبدیلی کا ہے۔ اگر کوئی ادارہ دروازہ بند کرے تو نیا دروازہ خود کھولنے کی ہمت چاہیے۔ اگر صحافی کے پاس تجربہ، زبان اور موضوع پر عبور ہے تو وہ اپنی ذات میں خود ایک ادارہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافتی تنظیمیں، پریس کلبز اور یونیورسٹیوں کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ صحافیوں کے لیے ڈیجیٹل سکلز کی تربیت شروع کریں۔

    حکومت اور میڈیا مالکان کو بھی صرف چھانٹی نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافیوں کو تربیت دے کر ان کا راستہ ہموار کرنا چاہیے۔ اگر میڈیا ہاؤسز نے باامر مجبوری ورکرز کو ملازمت سے نکالنا ہو تو پہلے انہیں ڈیجیٹل میڈیا کی ٹریننگ دے دی جائے تو احسان بن جائے گا۔ آج کا صحافی ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ماضی کی روایتی صحافت، دوسری طرف مستقبل کا آزاد ڈیجیٹل میڈیا۔ فیصلہ صحافی کو خود کرنا ہے کہ وہ پرانے ڈوبتے جہاز میں سوار رہے یا نئے ساحل کی طرف تیرنے کی ہمت کرے۔

    یاد رکھیں، ڈیجیٹل میڈیا صرف ایک نیا پلیٹ فارم نہیں بلکہ نئی آزادی، نیا اظہار اور نیا روزگار ہے۔ صحافت ختم نہیں ہوئی، اس نے صرف لباس بدلا ہے۔ جو صحافی وقت کے ساتھ خود کو بدل لے گا وہ آج بھی کامیاب ہوگا اور کل بھی۔ وہ خود ہی ادارہ ہوگا، خود ایڈیٹر اور خود ہی اپنی ایڈیٹوریل پالیسی کا مالک بھی!