Tuesday, 21 May 2024
    1.  Home/
    2. Saadia Bashir/
    3. Sheikh Chilli Ke Jhoot

    Sheikh Chilli Ke Jhoot

    پپو کے گھر کھانے کو کچھ نہیں تھا اس کا پورا خاندان بھوکا بیٹھا تھا۔ چوہدری کے پاوں پکڑ کر رو رو کر مدد مانگی تو چوہدری نے اسے ایک ہزار تھما دیا۔ پپو کو اتنی خوشی ہوئی کہ اس نے راستے میں ہی ہزار روپے کے گیسی غبارے خرید لیے۔ گھر پہنچا تو گھر والوں کی بے تاب نظریں کھانے کی تلاش میں تھیں۔ پپو غبارے پا کر اتنا خوش تھا کہ اس کی نظر آسمان سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔ غباروں کو ہوا میں اڑا کر اس نے محسوس کیا کہ اس کا پورا خاندان ہوا میں اڑ رہا ہے۔ غبارے ہوا میں غائب ہونے لگے تو وہ پھر چوہدری کے پاس پہنچا۔

    اس بار اس نے دو ہزار روپے پکڑے اور راستے میں ہی رنگ روغن کا سامان لے کر گھر پہنچا۔ اسے لگا کہ گھر کی بیرونی دیوار پر روغن کروا کر وہ بھی چوہدری بن سکتا ہے۔ گھر کی غربت ختم کرنے سے بہتر ہے کہ گھر والوں کو دور بھگایا جائے۔ روغن کے ڈبے گھر کے باہر ہی چھوڑے اور پپو ایک بار پھر چوہدری صاحب کے پاس پہنچا۔ اس بار چوہدری کی منتوں کے بعد پانچ ہزار روپے ملے۔ پپو نے راستے میں ہی پانچ پانچ سو پر دو ملازم رکھے۔ جن سے بیرونی دیوار پر اس طرح پینٹ کروایا گیا کہ دیوار دو لخت نظر آئے۔

    پپو نے ٹوٹی ہوئی دیوار کی تصویریں اس انداز سے کھینچیں کہ دیوار نئی لگے اور پورے گاوں پر اس کی ذہانت اور خوش حالی کی دھاک بیٹھ جائے۔ دوسری طرف اس نے دو تین جگہ نقب لگا کر دوبارہ تصاویر اتاریں اور دیوار پر روغن مکمل ہونے کے بعد بھی تصویریں اتاریں۔ بیوٹی پارلز اور سلمنگ سنٹر تکنیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے beforeاور afterکی تصاویر جاری کرنے میں پروپیگنڈہ کے بنیادی اصول کو مدنظر رکھا یعنی"اگر تم اپنے مخالف کو قائل نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے الجھا دو، تا کہ اس کی یکسوئی برقرار نہ رہے" اس اصول کے تحت ہی سرکلر جاری کیے گئے اور اتنے جاری کیے گئے کہ اصل حقائق دب کر رہ گئے۔

    اب کلچر کی ترویج کی ضرورت تھی۔ وہ کلچر جو اپنی روح کے ساتھ موجود تھا۔ اسے غیر ضروری قراردیا گیا۔ اس نے جرمن تعریف کو سامنے رکھا۔ جرمن تہذیب اور کلچر کی تفریق میں تہذیب کو مادی وسائل اور ٹیکنالوجی سے جب کہ کلچر " kultur "کو روحانیت سے جوڑتے ہیں۔ سو روحانیت کے نئے دروازے پھونکوں سے کھولے گئے۔ وسائل کو ہوا میں اڑانے کا نام کلچر رکھا گیا۔ سیکولر لابی کے مطابق جھوٹ کو اتنا اور بار بار پھیلایا گیا کہ لوگوں کو سچ جھوٹ کی تمیز ہی بھول جائے۔ اس مقصد کے لیے چوہدری صاحب سے پھر ادھار پکڑا گیا۔

    اب کی بار گاؤں کے گھر گھر میں ایک ایک روپے کی شیرینی تقسیم کی گئی اور بدلے میں ایک ایک روٹی وصولی گئی۔ یہ کاروبار پھیل رہا تھا۔ سنجیدہ دانشور کڑھنے کے سوا کیا کر سکتے تھے؟ تاش کے پتوں کی گیم جاری تھی۔ بادشاہ، ملکہ، اکا، یکا سب پپو کے پاس تھے۔ جتنا بھی ماہر کھلاڑی ہوتا اس کی ہار یقینی تھی۔ اگلی بار ایسا سرمہ خریدا گیا جو زبردستی لوگوں کی آنکھوں میں ڈالا گیا تا کہ انھیں ہرا ہرا دکھائی دے۔ اگر کسی کو ہرا نظر نہ آتا تو اسے اتنی گالیاں دی جاتیں کہ وہ ڈر کر سرخ کو بھی سبز تسلیم کر لیتا۔

    بے روزگار نوجوان سوشل میڈیا پر نوکری کے لیے پپو کو روحانی مرشد تسلیم کروانے پر مامور تھے اور ایسی ایسی کہانیاں تخلیق کرتے جو تاریخ کے حقائق کو تباہ کر رہی تھیں۔ اگر کوئی دلیل کے ساتھ جواب دیتا تو اس کے خاندان کے بخیے ادھیڑے جاتے۔ مذہب کی ترویج سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں تک کرنے کی پلاننگ کی گئی۔ دوپٹے آنکھوں، کانوں اور منہ پر لپیٹے گئے۔ مذمت کے لفظ کو تعریف کے معنی میں لیا گیا۔ سو اب پورا گاؤں بھی مذمت کرتا تو پپو کو تالیوں کی گونج ہی سنائی دیتی۔ یہ ایک پپو کی بات نہیں گھر گھر میں ایسے پپو موجود ہیں جو دوسروں کو " پپو " بنا کر راج کرتے ہیں۔

    جب ان سے کوئی بھی سوال کیا جائے تو وہ پرانے پاکستان کی تصویر نکال لاتے ہیں۔ اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لیے وہ کبھی تصویر کو الٹا کرتے ہیں، کبھی ٹیڑھا۔ ضمیر جعفری کی" ایبسٹریکٹ آرٹ " کی تاویل لا کر ناک کو خطرناک اور ٹانگوں کو مسواک ثابت کرنے میں انھیں دشواری نہیں ہوتی۔ کلچر ڈے سے ہفتہ کلچر میں وسائل جھونک کر ثقافت کو مضبوط دکھایا جاتا ہے۔ گاؤں کے چوہدری کی حویلی کا چراغ پورے گاؤں کو روشن نہیں کرسکتا لیکن ثابت یہ ہی کیا جاتا ہے۔ ہم سب اپنے شعور کو پپو کے خیالی منصوبوں پر قربان کرنے سے ڈرتے ہیں۔

    تو ہماری سوچ کی رفتار کو محدود کر

    ان دلاسوں سے تو ہم تسخیر ہونے سے رہے۔

    ہم ایسے کتنے ہی پپووں سے واقف ہیں لیکن ان کے شیخ چلی کے منصوبے توڑنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یہ پپو ساری عمر پپو ہی رہتے ہیں اور ان کی نظریں گیسی غباروں کے ساتھ اڑ کر آسمان سے زمین کی طرف نہیں آتیں۔ ان کا خراج قوم کو دینا پڑتا ہے۔