Tuesday, 21 May 2024
    1.  Home/
    2. Saadia Bashir/
    3. Peeno Aur Technology

    Peeno Aur Technology

    تمام اداروں کے ساتھ افراد بھی ٹیکنالوجی پر شفٹ ہو چکے ہیں۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور غفلت کے ماروں کو پھر بھی جھنجھوڑ نہ سکی۔ ابھی تو انھیں زمین بھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ ہوا میں اڑنے کا خواب کہاں سے لاتے لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات۔۔ پینو نے محلے کے واحد نیٹ سنٹر میں کام کرنے والے سے رابطہ کیا اسے یقین تھا کہ وہ بچہ انصاف پسند ہے۔ اسے اکٹھی دو چاکلیٹ دینے کے بعد پینو نے رازدارانہ لہجے میں اس سے محلے میں ہونے والی خفیہ کارروائیوں کی تفصیل پوچھی۔ اسے ہونق دیکھ کر پینو نے اسے بتایا کہ سب لوگ ٹیکنالوجی پر شفٹ ہو چکے ہیں۔"تو ماسی تو یہاں کیا کر رہی ہے جا جدھر سب لوگ گئے ہیں۔" او نا ہنجار۔۔۔ پینو نے لڑکے کے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ ریپر اتارنے سے پہلے ہی جھپٹ لی۔

    انصاف پسندی سے اسے نجانے کیوں اختلاف تھا۔ ٹیکنالوجی سے آن لائن کا مغالطہ کتنے ہی گل کھلا سکتا ہے۔ وہ عوام جن کے پاس اپنے حقوق کی کوئی ایپ نہیں اور حکومتی بیگار کے ہزاروں انسٹرومنٹ موجود ہیں۔ جہاں نادرا کی ویب سائٹ چار سالوں سے اپ ڈیٹ نہیں ہو سکی۔ جہاں بنکوں کے سسٹم ہفتہ وار بنیادوں پر بیٹھے رہیں۔ جہاں آن لائن فراڈ کے کھاتے کھلے رہیں اور جعل سازی کی صنعت آشیرباد کے ساتھ فروغ پا چکی ہو۔

    جہاں ایسی apps کی فراوانی ہو جہاں اصل صورت تک نہ پہچانی جا سکے۔ جہاں گھر میں ٹینڈے پکا کر مٹن کڑاہی کی تصاویر شو بازی کے لیے استعمال کی جائیں۔ جہاں ملکی ترقی کی تختیاں سوشل میڈیا پر جگمگاتی نظر آئیں۔ جہاں ٹرینڈ کے تحت ہر روز مخالفین کی دستار و چادر کے بخیے ادھیڑے جائیں۔ وہاں ٹیکنالوجی کا استعمال سمجھنا دور اذکار نہیں، سامنے کی بات ہے۔

    پینو نے محلے کی شادی میں بیگم صاحبہ کی دی ہوئی قیمتی پرانی ساڑھی پہنی تو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اگلے ہی دن اسے پرانے فون پر دس ہزار کے ٹیکس کا نوٹس وصول ہو گیا اف خدایا میری پوری تنخواہ! پینو سر نہ پیٹتی تو کیا کرتی۔ پیغام بھی وہ جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا تھا۔ دیا بھی جا سکتا تو اس کے موبائیل میں بیلنس کہاں تھا۔ وہ کیسے بتاتی کہ ساڑھی پھٹی ہوئی تھی اور اسے تنخواہ کے تین ہزار قرض میں کٹوا کر دوبارہ قرض لینا پڑتا ہے۔ وہ کیسے بتاتی کہ کئی بار وہ چھان بورے سے سوکھی روٹیاں وہ اپنے بچوں کو کھلا کر محلے میں اپنی خوش حالی کے تذکرے کرتی ہے۔ جہاں مزدور کو ایک ہزار نقد نہ دینے کے لیے اربوں روپے کی مشینیں خریدی جائیں تا کہ شفاف عمل کے ذریعے مزدور کو سستی دالیں مہیا کی جا سکیں کیونکہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہے اور صرف نوٹیفکیشن جاری کرنے میں کامیاب ہے۔ جس نظام پر حکومت کا اعتماد نہیں۔ اس پر عوام اعتماد کرے تو آخر کیسے۔

    بد اعتمادی کا عالم یہ ہے کہ بیانات کی تصدیق ویڈیوز سے کی جاتی ہو اور انصاف کا نظام وزراء کے ہاتھ ہو۔ وہ خود کو امین اور مخالف کو خائن کا ٹیگ چپکانے پر مصر رہیں۔ جہاں آہ و زاری کو ڈھونگ اور آنسوؤں کو ستارے سمجھا جائے۔ وہاں کس سے فریاد اور کس سے منصفی کی امید رکھی جائے۔ ایک پینو نہیں پوری قوم ٹیکس کے نظام پر اپنے تحفظات کس سے ظاہر کریں۔ وزیراعظم کی ہر تقریر کا ساٹھ فی صد حصہ گزری حکومت کی کرپشن کے تکراری بیان پر مشتمل ہوتی ہے۔ تیس فی صد عوام سے ٹیکس وصولی کے تیقن اور باقی مستقبل کے خواب جو کئی سالوں پر محیط ہے۔ یہی سب ہے جسے وہ کند ذہن عوام کو رٹوانے پر مصر ہیں۔ عوام میں اگر کوئی اچھائی انھیں نظر آتی ہے تو صرف ان کی خیرات کرنا، چندہ دینا، چیریٹی کرنا۔ کبھی اصطلات کے نام پر عوام کی بہتری کی تجویز سننے میں نہیں آئی۔ خوش گمانی سی خوش گمانی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ پانی ہمیشہ پنسال کی طرف آتا ہے۔ تو یہی کاسے عوام کے ہاتھوں میں بھی ہیں اور بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

    لیکن افسوس جس طرح حکومتی خزانے بھرے ہونے کے باوجود خالی رہتے ہیں ایسے ہی عوام کی زندگیاں خالی ہیں۔ وزیراعظم صاحب اگر عوام کے دماغ مسخر کرنے اور نفرت بھرنے کے علاوہ ان کی بدحالی اور لمحہ لمحہ مشکلات کی طرف بھی توجہ دیتے تو احسن اقدام ہوتا۔ انھوں نے بتایا نہیں کہ ٹیکنالوجی کے حمام میں حکومتی مشینری بھی کیا ننگی نظر آئے گی اور کیا عوام کی بدحالی دکھانے کے لیے انھیں کس طریقے سے ٹیکنالوجی پر شفٹ کیا جائے گا۔ جس طرح وزیراعظم صاحب نے خیرات کرنے میں پاکستان کو مثالی معاشرہ سمجھا ہے۔

    شاید انھیں ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے گزشتہ دنوں جس طرح یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں سینکڑوں امیدواروں سے درخواستیں وصول کر کے انھیں یک جنبش نظر انداز کر کے اقربا پروری اور باہمی تفہیم کی بنیاد پر تقرریاں کی گئیں۔ وہ بھی شاید اسی چیریٹی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ عوام کی عاجزانہ درخواست ہے کہ حکومت عوام کو خیرات میں ہی سہی بیانات کے علاوہ اصطلاحات کےنام پر خواب نہیں تعبیر میں آسانیاں تقسیم کرنے کا بھی سوچے۔ موجودہ حکومت ام البحران کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ مہنگائی کا رونا رونے والے اب پٹرول ملنے کی دعائیں مانگیں گے۔ یہی ریت چلی آرہی ہے اور ختم ہونے کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔