Tuesday, 21 May 2024
    1.  Home/
    2. Saadia Bashir/
    3. Khush Aamdeed Nawaz Sharif

    Khush Aamdeed Nawaz Sharif

    سیاست میں تہذیب و رواداری کوحصہ دار بنانے پر شکریہ۔ کبوتر کے ذریعہ امن و دوستی کے پیغام کا شکریہ۔ کبوتر محض ایک علامت نہیں ہے۔ گزرے سالوں کی تفصیلی آپ بیتی ہے۔ کبوترجو خود شناس ہوتا ہے۔ موسم و حالات کی سختی برداشت کرنے کے ساتھ اپنا راستہ نہیں بھولتا۔ مقناطیسی قوت کے اختلاف کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنے راستے کو پہچانتا ہے۔ وہ راستہ جو تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھتا ہے۔ وہ راستہ جو امید کی کرنیں روشن رکھتا ہے۔ کبوتر کے ذریعہ اس پیغام رسانی کا شکریہ۔

    اٹھائیس مئی کے جواب سے نو مئی کو رد کرنے کا شکریہ۔ یہ طے ہے کہ ہمیں سیاست کے سکرپٹس کا رخ تبدیل کرنے اور کہانی کے بیانات کو اپنے معاشرتی مسائل کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب آپ نے واضح کیا کہ زبان کی قینچی سے موٹر وے کے سو کلومیٹر نہیں کاٹے جا سکتے، دھمکیوں، نعروں اور ٹک ٹاک ویڈیوز کے ذریعہ قوم کا مجموعی مزاج تبدیل کرنا بہت آسان نہی۔ جراثیم چھوڑنا الگ بات ہے۔ یہ امر البتہ افسوس ناک ہے کہ یہ جرثومے تلف نہیں ہو سکیں گے۔ کوئی دھونی دیجیے یا سپرے کیجیے۔ یہ کیڑے رینگتے رہیں گے۔

    تاہم ہمیں امید بندھی ہے کہ بہتان، الزام تراشی اور یاوہ گوئی کا خاتمہ ہوگا۔ دھمکیاں دیتے حکمرانوں سے نجات ملے گی۔ جو اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر مریم نواز کا تمسخر اڑا کر مجمع کو ہنسایا کرتے تھے۔ شاید مریم نواز کی خوب صورت شخصیت سے حسد میں باولے پن میں پڑ گئے ہوں گے۔ یاد رہے کہ بہتان یعنی "لمز"کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ "لمز" کسی میں عیب نکالنے اور عیب ظاہر کرنے یا عیب پر طعنہ زنی کرنے کے ہیں۔ صالح علماء نے فرمایا ہے کہ انسان کی سعادت اور خوش نصیبی اس میں ہے کہ اپنے عیوب پر نظر رکھے، ان کی اصلاح کی فکر میں لگا رہے اور جو ایسا کرے گا اس کو دوسروں کے عیب نکالنے اور بیان کرنے کی فرصت ہی نہ ملے گی۔

    نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر

    پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا

    تمام ترقیاتی کام روک کر چور چور کے نعرے لگانا آسان ہے۔ سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ کے ذریعے بلین ٹری (درخت) بھی لگ جاتے ہیں۔ تکمیلی منصوبوں پر تختیاں بھی لگتی رہیں۔ اس کے بعد ہر طریقے سے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے شخص کو رسوا کرکے اس کی سرکوبی کی مہم کے آغاز نے خوب شور بپا کیے رکھا۔ مخالفین پر جھوٹے تشہیری رویوں سے ہر ممکن الزام تراشی و پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔ اس مقصد کے لئے بازاری زبان بھی استعمال کی جاتی رہی۔ جس کا تہذیب و تمدن سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔

    مخالفین پر کیچڑ اچھالا جاتا رہا اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے نئی نسل کو کیچڑ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ کیچڑ اب دلدل بن چکا ہےاور اسے زرخیز بنانے کے لیے صدیاں درکار ہیں۔ نواز شریف صاحب آپ کی صورت ہمیں مرہم اور تریاق کی امید بندھی ہے۔ آپ کا اور مریم نواز شریف کا بار بار پیشیاں بھگتنے اور خاموشی کے ہتھیار کے ساتھ تبدیلی کی امید دلاتے رہنے کا شکریہ۔ زومبیز کی بد زبانی، ان کی دشنام گوئی، بد تہذیبی کے ننگے ناچ کو نظر انداز کرنے کا شکریہ۔

    آپ نے بتایا کہ ماضی گزر چکا ہے ہمارے سامنے اب حال کو درست کرنے کا موقع ہے اور اگر ہم کسی شخص کے نقطہ نظر کو درست نہیں بھی سمجھتے، تب بھی ہمیں صرف اسی بات کا حق ہے کہ ہم شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے اس کے نقطہ نظر کی خامی کو دلائل کے ساتھ واضح کریں۔ مریم نواز شریف نے بحثیت مشرقی روایتی بیٹی باوقار انداز میں دفاعی مورچہ سنبھالے رکھا۔ اس عمل میں اس خاندانی تربیت کی واضح جھلک نظر آتی رہی جو مشرقی روایات و اقدار کی امین ہے۔ محض ڈوپا مین کے سہارے الزامات کی بھر مار سے لطف لینے والوں کی ذہنی استعداد اس تدبر سے عاری ہے۔

    حیرت تو یہ ہے کہ اچھے خاصے عمر والے، تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانوں کے لوگ بھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے اخلاق کا اطلاق گھر والوں پر بھی ہوتا ہے؟ وہ ٹک ٹاک چیخ چنگھاڑ کر پلانٹڈ غم و غصہ کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ملک و قوم کو کچھ دینے سرے سے قابل ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں مریم نواز نے جس فہم سے اساتذہ کو جیل سے رہائی دلوائی یہ امر قابل تحسین ہے۔ اس کا شکریہ۔ یہ عزم حتمی ہے کہ زندگی جینے کے لیے، ہمیں مستقبل گیر ڈوپامین اور حال پر مرتکز ڈوپامین کے درمیان ایک توازن تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں نواز شریف کا سادہ اور شائستہ انداز ہمارے لیے باد صبا کا جھونکا ہے۔

    ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود

    آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

    (احمد فراز)