Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Khan Sahib, Apne Asal Bayaniye Ki Taraf Wapas Loutiye?

Khan Sahib, Apne Asal Bayaniye Ki Taraf Wapas Loutiye?

عمران خان کے لیے مشکلات روزبروزبڑھتی جارہی ہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ مصائب خاص ترتیب اور منصوبہ بندی سے بڑھائے جارہے ہیں۔ ہراہلِ ہنرکو معلوم ہے کہ اس فیصلہ سازی کااصل منبع کہاں ہے۔ کون کر رہا ہے۔ مگرسنجیدگی کاتقاضہ یہ ہے کہ ان کاکھلے الفاظ میں ذکرنہ کیاجائے۔

بڑے بڑے سیاسی گرو سب کچھ جانتے ہیں مگرخاموش ہیں۔ صرف اس لیے کہ اگر"تختِ شاہی" گرداب میں آتاہے توان کے آگے بڑھنے اور امیر ہونے کے مواقعے بہت بڑھ جائیں گے۔ یہ ہمارے بدقسمت خطہ کی تاریخ ہے کہ "بادشاہ"کے بدلنے پر چند درباری حددرجہ فائدے میں رہتے ہیں۔ اگلے نظام کاحصہ بننے کے لیے قیمتی انگرکھے سلوانے کارواج کم ازکم ڈھائی ہزارسال پراناہے۔

تواترسے عمران خان کوایک فارغ العقل، نالائق اور کم فہم انسان ثابت کیاجارہاہے۔ یہاں تک فرمایاجاتا ہے کہ وہ کوئی سنجیدہ بات سمجھنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا؟ اس میں گھاگ ترین سیاسی پارٹی کے اکابرین کی فنی مہارت شامل ہے۔ 2018ء کے الیکشن کے متعلق بہت سی چیزیں جانتاہوں۔ عمران خان کو2018ء کے الیکشن میں قصداً دوتہائی اکثریت سے محروم رکھاگیا۔ یہ حیرت انگیزانکشاف ہے۔ الیکشن سے پہلے یہ بات سیاسی، بین الاقوامی اورغیرسیاسی قوتوں میں طے ہوئی تھی کہ اس بارچہرے کوتبدیل کیاجائے گا۔ مگر اس سے بھی اہم بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب کو پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت لینے سے روک دیا جائے گا۔

اس وقت سمجھ نہیں آرہی تھی مگر اب یہ جوہری نکتہ سب کو نظرآرہاہے کہ عمران خان کسی بھی اہم معاملے میں فیصلہ کن رائے رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ا نہیں پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہے۔ خان صاحب کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا، کیونکہ میری ان کی کوئی ملاقات نہیں ہے۔ مگر ہو سکتا ہے انھیں حقیقت معلوم ہو۔ دراصل ان کے ہاتھ پیرباندھے ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے کی نوبت آئی کہ نوازشریف نے دوتہائی اکثریت ملنے کے بعد جو کچھ کیا، اب یہ "رسک"نہیں لیاگیا۔ معاملہ فہم لوگوں کو اس بات کااندازہ تھا۔ میرا گمان ہے کہ اب یہ حقیقت خان صاحب پربھی کھل گئی ہوگی۔

پنجاب اورمرکزمیں خان صاحب کوان سیاسی گروہوں کی حمایت ملی جن کے سرپر، ریفرنس اورنیب کی تلوار موجود تھی اورہے جس سے بچنے کے لیے وہ ہرحکم ماننے کے لیے تیار ہیں۔ نہ ماننے کی گنجائش ان اتحادیوں کے پاس ہے ہی نہیں۔ ہاں ان لوگوں کو بلیک میلنگ کی سہولت ہے۔ عمران خان اب اندازہ ہوچکاہے کہ وہ استعمال ہوچکاہے۔ اس کے سیاسی کیریئرکوبربادکیاگیاہے اور عوام کے ذہنوں سے اسے "آخری اُمید" کے طورپربھی ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ویسے سیاست میں منطقی بات کرنی بہت مشکل ہے۔ مگر حالیہ آٹے کے بحران کولے لیجیے۔

وزیراعظم کے حکم پرجوانکوائری رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ پنجاب میں ایک اتحادی جماعت کے اہم رکن نے تمام تردبائواستعمال کرکے لاہور کی آٹاملوں کاکوٹہ کم کرایا اورپنڈی کی فلورملوں کابڑھوا دیا۔ پنڈی میں شائد168ملیں ہیں۔ پنڈی کی اوراس کے ملحقہ علاقوں کی آبادی، لاہورکی نسبت سے قدرے کم ہے۔ لازم ہے کہ آٹے کاکوٹہ لوگوں کے استعمال کے لیے توبڑھایا نہیں گیاتھا۔ اسکوتوانتہائی ذہین طریقے سے مختلف گروہوں نے ہمسایہ شمالی ملک میں بھجوادیا۔

سب کو اندازہ ہے کہ پنڈی ڈویژن سے لے کرافغانستان تک کے راستے میں حائل رکاوٹیں خریدی جاتی ہیں۔ ہرشخص جانتاہے۔ مگر اس کا ذکرنہیں کیاجاتا۔ کوٹہ بڑھانے کاریٹ آپکی توقع سے بھی زیادہ ہے۔ صاف مطلب یہ ہے کہ چنداہم لوگ مزیدامیرہوگئے۔ سندھ کے متعلق کیابات کی جائے۔ وہاں توحکومت نام کی چیزہی نہیں ہے۔ گندم خریدنے کے اندراس درجہ تساہل برتاگیاکہ لوگوں کی پریشانیوں میں حددرجہ اضافہ ہوگیا۔ یہی تساہل کے پی میں بھی نظرآیا۔

بلوچستان نے سرے سے گندم کی خریداری کی ہی نہیں۔ ویسے عرض کرتاچلوں تین برس، بلوچستان رہاہوں۔ وہاں کی ملوں سے آٹابڑے آرام سے افغانستان پہنچ جاتا ہے۔ حددرجہ منافع پرفروخت ہوتاہے۔ جزئیات میں نہیں جاناچاہتا۔ مگرپنجاب کی سیاسی اورسرکاری مشینری حالات کوسمجھ ہی نہیں پائی۔ نتیجہ صرف ایک نکلا، پی ٹی آئی کی حکومت اورعمران خان کی اس درجہ جگ ہنسائی ہوئی کہ خداکی پناہ۔ ان کی حکومت کی ساکھ کوخوفناک حدتک نقصان پہنچا۔ مگر اب اس معاملے میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ جنھوں نے پیسے کمانے تھے، وہ دیہاڑی لگاگئے۔ ناملینے کاکوئی فائدہ نہیں۔ یہاں سچ بولنے والے کوقبرتک اُتارنا "جہاد" سمجھا جاتا ہے۔

بات عمران خان کی ہورہی تھی۔ یہ بات درست ہے انکوحکومت چلانے کاکوئی تجربہ نہیں۔ یہ بھی جانتاہوں کہ وزیراعظم ہائوس میں ان کے دوست نہیں، دشمن بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی بدقسمتی کاعروج ہے کہ وزیراعظم انتہائی درمیانے درجے کے بیوروکریٹس کے ساتھ حکومت چلانے کی کوشش میں مصروف ہیں جوکہ عملاًناممکن ہے۔ انتہائی کامیابی اورعیاری سے عمران خان کوسنجیدہ بیوروکریٹس سے دورکردیاگیاہے۔ انھیں اندازہ نہیں ہے کہ کس سرکاری افسرکی جڑیں مخالف حریف کے کس گملے میں پیوست ہیں۔ اس لیے ان کی ہربات کو منفی رنگ دیدیا جاتا ہے۔

ابھی فیصلہ ہوا نہیں ہوتا، کہ اس کونالائقی اوربیوقوفی کارنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہ کھیل کامیابی سے کھیلاجارہاہے۔ اس کانقصان صرف عمران خان کوپہنچ رہا ہے۔ تھوڑے دن پہلے پی ٹی آئی کے ایک رہنما تشریف لائے۔ وہ سیاسی حالات سے اس قدرنالاں بلکہ خوفزدہ تھے کہ گوشہ نشینی یا ہجرت کے متعلق سوچ رہے تھے۔ خیال تھاکہ انکاسیاسی کیریئر ختم ہوچکاہے۔ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف سے سیاسی وابستگی سے حددرجہ ہزیمیت ہوگی اورجیتنے کاتوکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے بقول یہ پی ٹی آئی کی پہلی اورآخری حکومت ہے۔ مگریہ بات بالکل صائب ہے کہ عمران خان کوسیاسی طورپرناقابل بیان حدتک نقصان پہنچاہے اورپہنچ رہاہے۔

مجھے کسی سیاسی پارٹی سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ میرے نزدیک جوبھی وزیراعظم بنے گا، وہ عوامی بہبودکے لیے کچھ بھی نہیں کرپائیگا۔ سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو اتنا بے توقیرکردیاہے کہ ملک میں "سیاسی اسپیس"حددرجہ کم ہوچکی ہے۔ اتنی تھوڑی اسپیس میں کوئی افلاطون بھی ملک کے بنیادی مسائل حل نہیں کرسکتا۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے۔

بتایا گیا ہے کہ عمران خان اس درجہ نرگسیت کاشکارہے کہ وہ کسی کی تجویزکوقابل غور نہیں سمجھتا۔ مگرایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ وہ تجاویز پر غورکرتاہے اورفیصلہ کرتاہے۔ بہرحال مجھے اس اَمرکا قطعاً ادراک نہیں کہ عمران خان کافیصلہ کرنے کاانداز کیا ہے۔ مگریہ سوال توبالکل جائزہے کہ وہ خودغورکرے کہ اس کی اصل طاقت کیاہے۔ بیس سال مسلسل ناکام ہونے کے بعدایک دم کیسے مقبول ہوگیا۔

جوہری بات یہ ہے کہ عمران خان نے پوری قوم اور بالخصوص نوجوانوں کوایک نیا، منفرد بلکہ انقلابی بیانیہ دیاتھا۔ گورنرہائوسوں کے ٹوٹنے کی نوید سنائی تھی۔ سفارش کے کلچرکوختم کرنے کی بات کی تھی۔ معاشی، معاشرتی، سماجی اوراقتصادی انصاف کی بات کی تھی۔ اس بیانیے نے لوگوں کے دلوں کے تاروں کو ہلایا تھا۔ لوگوں کے ذہنوں میں پیوست ہوچکاتھاکہ عمران خان جیسے ہی آئیگا، ملک کی تقدیربدل جائے گی۔ مگرحکومت سازی کے لیے عمران خان نے وہ وہ سمجھوتے کرلیے جواس کے اصل بیانیے سے یکسرمتضادتھے۔ نتیجہ یہ کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے منفی جذبات اُمڈآئے۔

اب بھی وقت ہے عمران خان کوچاہیے کہ وہ حقائق کولوگوں کے سامنے لائے۔ انھیں اپنی مجبوریاں بتائے اوراپنے اصل بیانیے کی طرف لوٹ جائے۔ اس کی حکومت جاتی ہے تو جائے۔ اگر وہ صدقِ دل سے اپنے پرانے بیانیہ کی تکمیل کے لیے حکومت چھوڑتاہے تولوگ اسے آرام سے مسند اقتدار پردوبارہ بیٹھادیں گے۔ مگراس کے لیے سنجیدگی اور تدبر چاہیے۔ اگر خان اسی طرح چلتا رہا تو آنے والے مسائل قیامت خیز ہوجائیں گے۔ حکومت توپھربھی چلی جائے گی۔ اپنے اصل بیانیے کی تکمیل کی خاطرقربانی دینے سے وہ سیاسی طورپر اَمرہوسکتاہے۔ شائد؟