Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Nawaz Sharif Mohtaat Rahen

Nawaz Sharif Mohtaat Rahen

وہ لوگ جھوٹے ثابت ہو گئے جو کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف وطن واپس نہیں لوٹ رہے۔ اس طرح کے دعوے کرنے والوں کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب سپریم کورٹ کی طرف سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں وہ شق ختم کر دی گئی تھی جس میں سوو موٹو فیصلوں کے خلاف ماضی سے اپیل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

میں قانونی تشریحات میں نہیں جانا چاہتا تھا کہ جب دس پانچ کی اکثریت سے ایکٹ برقرا ررہا تو پھر صرف وہ شق کیوں ختم ہوئی جس کا فائدہ نواز شریف کو ہوسکتا تھا مگر ایک سیاسی بات ضرور کہوں گا کہ نواز شریف اپنے والدین کی دعاوں کی وجہ سے ملکی تاریخ کا وہ منفرد سیاسی رہنما ہے جس کے گرد آج چالیس برس بعد بھی سیاست گھوم رہی ہے۔ یہاں بھائی بہنوں کے اور سالے بہنوئیوں کے نہیں رہے مگر نواز شریف کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا بھائی اس کے ساتھ بیٹوں سے بڑھ کے کھڑا ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی آمد کے لئے ماحول بنا لیا ہے۔ اس مرتبہ صرف کھمبوں پر سبزپارٹی پرچم ہی نہیں میڈیا کمپین میں بھی پروفیشنل ازم نظر آ رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے پاس بیچنے کے لئے بہت کچھ ہے جیسے نوے کی دہائی میں موٹرویز کا آغاز جو واقعی ایک جدید پاکستان کے قیام کا آغاز تھا اور سب سے بڑھ کے دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ تک کا دور جس میں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا ہی خاتمہ نہیں ہوا بلکہ سی پیک سمیت انفراسٹرکچر کی تعمیر کا تاریخی آغاز بھی ہوا، یہی وہ دور تھا جب افراط زر یعنی مہنگائی ملکی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر اور گروتھ آوٹ لک ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ جن کے دل میں تعصب نہیں ان تمام معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کے دور والا امن، ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رہتا تو پاکستان اس وقت جی ٹوئینٹی کا رکن ہوتا یعنی اس کی معیشت دنیا کی بیس بہترین معیشتوں میں سے ایک ہوتی۔

آج ہم غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں سمیت دیگر غیر ملکیوں کو نکال رہے ہیں تو یہی بات تو ڈان لیکس میں کہی گئی تھی۔ اس وقت ایک غلطی مقتدر حلقوں سے ہوئی اور دوسری غلطی مسلم لیگ نون سے ہوئی کہ اس نے شہباز شریف کو موقع دینے سے انکار کر دیا۔ یہاں شہباز شریف غلط نہیں تھے کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ پر بھائی کو ترجیح دی اور آج تک دیتے چلے آ رہے ہیں۔ قمر جاوید باجوہ او رجنرل فیض حمید نے کہا تھا کہ شہباز شریف آجائیں مگروہ نہیں آئے۔

اب یہاں ایک اور فکری اور عملی مغالطہ پیدا کیا جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ شہباز شریف کے دور میں مہنگائی ہوئی۔ اسحق ڈار ڈالر کو کنٹرول نہیں کر سکے۔ میں نے نواز لیگ کی میڈیا کمپین کا کانٹینٹ دیکھا ہے۔ عوام کو درست طور پر بتایا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور کی قیمتوں کے پروپیگنڈے میں آنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ یہ شیخ رشید سمیت دیگر کے مطابق واقعی وہ بارودی سرنگیں تھیں جو عمران خان اور اس کے سازشی حواری بچھا کر گئے تھے۔ یہ لوگ اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں ملکی تاریخ کے قرضوں کا ستر فیصد لے کر ہڑپ کر گئے تھے اور جاتے جاتے دوست ممالک کو ناراض ہی نہیں کرکے گئے تھے بلکہ آئی ایم ایف سے معاہد ہ بھی توڑ کر گئے تھے۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر شہباز شریف دن رات محنت نہ کرتے، آئی ایم ایف کی مائی کے سامنے فجر سے عشاء تک ہاتھ نہ جوڑتے تو پاکستان دیوالیہ ہوجاتا اور یہی عمران خان اوراس کا ٹولہ چاہتا تھا۔ جس پٹرول کے تین، ساڑھے تین سو روپے پر جانے پر شور مچایا جا رہا تھا وہ تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ ملتا اور جس بجلی کے یونٹ کے چالیس، پچاس روپے ہونے پر ماتم برپا تھا وہ بجلی ہی نہ ہوتی کہ دیوالیہ ہونے کے بعد اس کی پیداوار دو گھنٹوں تک محدود ہوچکی ہوتی۔ نہ امپورٹس والے بازار کھلے ہوتے اور نہ ایکسپورٹس والے کارخانے چل رہے ہوتے۔ کروڑوں افراد بے روزگار ہوتے اور عمران خان اور اسکے نااہل، بدعنوان، نوسر باز حواریوں کا ماتم کر رہے ہوتے۔

خدائے بزرگ و برتر میاں محمد شریف کے بیٹوں پر مہربان ہیں۔ وہ ان کے ذریعے واقعی اپنے کلمے اور نبی ﷺ کے نام پر بنے ہوئے ملک اور اس میں رہنے والے کلمہ گووں کی حالت کو بدلنا چاہتے ہیں ورنہ ہماری سیاسی تاریخ ایسا کب ہوا ہے کہ کسی نے ایک ننگے مارشل لاء اور ایک برقعہ پوش مارشل لاء کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ہو، جی ہاں، عمرانی دور تبدیلی کے نام پر بدترین آمریت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

میں واقعی نہیں جانتا کہ اگلے وزیر اعظم نواز شریف بن رہے ہیں یا شہباز شریف مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ عہدہ ایک مرتبہ پھر میاں محمد شریف مرحوم کے کسی ایک بیٹے کے پاس ہی آ رہا ہے۔ ایک دلچسپ بات بتاوں کہ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اس وقت رولا ڈال رہے ہیں کہ نواز شریف کو ریڈ کارپٹ ویلکم دیا جا رہا ہے اور یہ کہ ایک شخص کے لئے انتخابات آگے کئے گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ پلاننگ تھی تو اپنے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو کہتے کہ اس کا حصہ نہ بنتے۔

آپ اور آپ کے والد تو سیاست اور جمہوریت کے حوالے سے بہت سیانے سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے مشترکا مفادات کی کونسل میں نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حق میں ووٹ کیوں ڈالا۔ بہرحال اس وقت پیپلز پارٹی کا شور و غوغا بھی نواز شریف کے حق میں جا رہا ہے۔ لوگوں کا یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ نواز شریف ہی آ رہے ہیں اور وہ دور واپس آ رہا ہے جو پر امن ترین تھا، سستا ترین تھا، ترقی کی شاہراہ پر تیز ترین تھا۔

یہ کون کہہ سکتا ہے کہ نواز شریف کو غور کرنے کا موقع نہیں ملا ہوگا، ان کے پاس لندن میں غورو فکر کرنے کے لئے وقت ہی وقت تھا تاہم میں انہیں خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ پھر وہی لوگ سرگرم ہو چکے ہیں جنہوں نے ان کے ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے کو مزاحمت اور تصادم میں بدلا۔ پاکستان کی سیاست کے اجزائے ترکیبی مختلف ہیں اور اب انہیں پاکستان کے سینئر ترین اور تجربہ کار ترین سیاستدان کے طور پر اس کی سمجھ آجانی چاہئے۔ کچھ لوگ انہیں پھر ٹکر مارنے کی ترغیب دے رہے ہیں مگر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ان سے محتاط اور دور رہنا ہوگا۔

مریم نواز کی سیاست کی کرکٹ میں لائن اینڈ لینتھ پچھلے چھ ماہ سے بالکل درست ہو چکی ہے۔ تھوڑے کہے کو بہت جانیں، نواز شریف صرف ایک انقلاب لا سکتے ہیں اور وہ ترقی اور خوشحالی کا انقلاب ہے۔ کئی لوگ انہیں عمران خان سے ملنے یا عمران خان بننے کی صلاح دے رہے ہیں۔ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیں۔ عمران خان جن کا مسئلہ ہے وہ اس سے نمٹنے کی بہت بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔