Saturday, 14 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Muzakrat Khufiya Kyun?

    Muzakrat Khufiya Kyun?

    خبر ہے کہ پاکستان تحریک ا نصاف کے سربراہ عمران خان، پاک بھارت جنگ میں فتح کے بعد ایوان میں وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر میں کی گئی پیش کش کے جواب میں، حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار ہو گئے ہیں مگر اسی خبر میں ایک پخ یہ ہے کہ یہ مذاکرات میڈیا کی نظروں سے دُور اور خفیہ ہوں گے۔ اپنی پارٹی کے نصب کردہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کو دی گئی ہدایات میں اس کی احمقانہ وضاحت یہ دی گئی ہے کہ اس سے پہلے مذاکرات میڈیا کے تبصروں کی وجہ سے ناکام ہوئے حالانکہ جنوری، فروری میں ہونے والے مذاکرات سے پی ٹی آئی نے خود راہ فرار اختیار کی تھی۔

    پہلے ہم کچھ حقیقی اور اصولی باتیں کر لیتے ہیں کہ سیاسی اختلافات اور تنازعات کا حل سیاسی مذاکرات ہی ہوتے ہیں، ہاں، اگر آپ میں اتنا دم خم ہو کہ آپ ایک تحریک کے ذریعے حکومت کو بے بس کر دیں، تو پھر مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں، سو بسم اللہ، آپ کے پاس گھوڑا بھی ہے اور میدان بھی مگر دیکھا یہی گیا کہ فائنل کال کے نام پر بھی جو دھما چوکڑی مچائی گئی اس میں بھی راہ فرار علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی نے ہی اختیار کی۔

    سو تحریک والا کام تو ختم ہو چکا۔ پاک بھارت جنگ کے موقعے پر یہاں تک امیدیں لگائی گئیں کہ پاکستان کوخدانخواستہ، خاکم بدہن، میرے منہ میں خاک، شکست ہوجائے اور اس کے نتیجے میں شہباز شریف اور عاصم منیر اتنے کمزور ہوجائیں کہ عمران خان کو فاتح کے طور پر نکالا جا سکے مگر یہ امید یں بھی پوری نہیں ہوئیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ کمبی نیشن پر اللہ رب العزت کی خاص مہربانی ہے کہ وہ جنگ معاشی ہو فوجی ہو یا سیاسی، ہر کسی میں خدا کی طرف سے فتح و نصرت عطا ہو رہی ہے۔

    عمران خان نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تو اس سے پتا چلا کہ ان کو بات بہت دیر سے سمجھ آتی ہے، بہرحال، یہ ان کی پارٹی کا مسئلہ ہے کہ ان کے لیڈر کا آئی کیو لیول کتنا ہے۔ ہم تو شروع سے ہی کہہ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں سے ہی مذاکرات کرتی ہیں مگر وہ تھے کہ سیاسی فائدے کا دودھ لینے کے لئے بیل کے نیچے جا رہے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار اصرار کے باوجود فوج نے مذاکرات سے باز رہ کے اپنی عزت بھی بچا لی ہے کیونکہ جو عمران خان، فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ کا نہیں ہوا، جنہوں نے اسے اقتدار دیا، وہ سید عاصم منیر کا کیسے ہوسکتا تھا۔

    فوج کا یہ رویہ عین آئینی، جمہوری اور قومی ہے اور مجھے امید ہے کہ ہماری فوج اسی اصولی اور اخلاقی موقف پر قائم رہے گی۔ فوج نے تو اس حد تک آئینی اور اخلاقی رویہ اپنایا کہ اس نے نو مئی کے معاملات میں بھی آئینی اداروں پارلیمنٹ اور جوڈیشری کی طرف دیکھا۔ بار بار یہی پریس ریلیز آتی رہی کہ آئین اور قانون کے مطابق ان مقدمات کا فیصلہ کیا جائے ورنہ ماضی میں حملے تو ایک طرف رہے، ان عمارتوں اور اس ادارے کی طرف دیکھنے سے ہی مارشل لا لگ جایا کرتے تھے۔

    بات ہور ہی ہے عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کی اور میں ایک سیاسی تجزیہ کار کے طور پر اس پولیٹیکل موو کو درست سمجھتا ہوں مگر میرا اعتراض مذاکرات کے خفیہ رکھے جانے پر ہے۔ بیرسٹر گوہر نے اس خبر کے باہر آنے پر میڈیا ٹاک کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ڈیل کبھی ڈیل نہیں کریں گے مگر سیاسی مسائل کا حل مذاکرات میں ہی ہے۔ میں بیرسٹر گوہر سمیت پوری پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں کہ اگر عمران خان این آر او نہیں لینا چاہتے، وہ ڈیل نہیں کرنا چاہتے تو وہ مذاکرات کو خفیہ کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔

    یقینی طور پر خفیہ مذاکرات میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے میڈیا اور عوام کو آگاہ کرنا مقصود نہیں ہوتا اور جو بات آپ میڈیا اور عوام سے چھپاتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں تو غلط ہوتا ہے۔ ویسے میں اپنے میڈیا پر عدم اعتماد پر بھی احتجاج کرتا ہوں کہ اسی میڈیا میں اب بھی عمران خان کے بہت سارے کھلے اور چھپے ہوئے حامی موجود ہیں بلکہ میڈیا تو ایک طرف رہا، اسٹیبلشمنٹ اور حکمران جماعت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو فوج سے مخاصمت کی وجہ سے اپنے بیانات سے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔

    یہ وہی میڈیا ہے جس نے بھارت کے میڈیا کے مقابلے میں، کم عمر اور کم تجربہ کار ہونے کے باوجود، کہیں زیادہ بہتر قومی اور صحافتی کردارادا کیا ہے۔ ویسے مجھے عمران خان کی اس خواہش کے بہت زیادہ پورے ہونے کے امکانات بھی نظر نہیں آتے کہ میڈیا سے بچ کے کوئی مذاکرات کر لئے جائیں۔ خود ان کی جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خبروں کو لیک کریں گے اور اس کے بعد وہ خبریں ڈسکس ہوں گی جو شائد درست بھی نہ ہوں کیونکہ جب آپ حقیقی خبروں کا راستہ روکتے ہیں تو ان کی جگہ خواہشات اور مفادات خبریں بن کے سامنے آجاتے ہیں۔

    میرا وزیراعظم شہباز شریف کو بھی یہی مشورہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی بجائے اپنی قوم پر اعتماد کریں۔ اعلان کریں کہ وہ جو بات کریں گے وہ قوم کو اعتماد میں لے کر کریں گے۔ میرا مشورہ تو یہ بھی ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے میاں نواز شریف والی بزرگی، متانت، اچھائی، رواداری بھی ہرگز ہرگز مت دکھائیں کہ ماضی میں ان تمام خوبیوں کا غلط استعمال کیا گیا۔ کھیر اسی کو کھلائیں جو اسے ہضم کرسکے۔

    یہ درست ہے کہ اس وقت اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی ہی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اس جماعت نے ہمیشہ پاکستان دشمن کردارادا کیا ہے بالخصوص دس اپریل دو ہزار بائیس کے بعد۔ اس نے آرمی چیف کی تقرری کے موقعے پر ایک محب وطن اور حافظ قرآن فوج کے سربراہ کا راستہ روکنے کے لئے لانگ مارچ کیا اورمجھے شبہ ہے کہ اس کے پیچھے بھی ملک دشمن قوتیں ہی تھیں۔ پی ٹی آئی نے ملک کو دیوالیہ کرنے کی ایک سے زائد مرتبہ کوششیں کیں جیسے آئی ایم ایف کا بیل آوٹ پیکج رکوانے کے لئے مظاہرے اور جیسے بیرون ملک پاکستانیوں کو ترسیلات زر نہ بھیجنے کی کال۔ اس نے اسلام آباد کو آگ ہی نہیں لگائی بلکہ لاہور میں رینجرز اورپولیس پر پٹرول بموں سے حملے۔

    میرا خیال تھا کہ نو مئی اور چھبیس نومبر سب سے بڑی حماقتیں اور بغاوتیں ہوں گی مگر اس جماعت نے پاک بھارت جنگ کے موقعے پر سوشل میڈیا پر جو ملک دشمن کردارادا کیا اور جس طرح مودی کی زبان بولی، وہ قومی تاریخ کا بڑا سیاہ باب ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ مجیب الرحمان بننے کے خواہش مند اس سیاست دان سے اتنے ہی محتاط اور ہوشیار ہو کے مذاکرات کریں جتنے محتاط اور ہوشیار آپ نریندر مودی سے مذاکرات سے میں ہوسکتے ہیں کہ یہ ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔