Thursday, 05 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Mehangai Kam, Awam Mehroom

    Mehangai Kam, Awam Mehroom

    مہنگائی کم، عوام محروم، یہ میرا نہیں وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا تجزیہ ہے جن کے دور میں معاشی استحکام آیا ہے۔ پاکستان پی ڈی ایم دور میں ہی، شہباز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ میں، ڈیفالٹ کے خطرے سے بچ گیا تھا مگر اس سے پہلے جو نقصان ہوا وہ بھرا نہیں جا سکا۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حکومت نے افراط زر کو 38فیصد سے آدھے فیصد تک پر لا کھڑا کیا ہے مگر افراط زر، اشیا کی قیمتوں کا نہیں بلکہ ان کی قیمتوں کے بڑھنے کی رفتار کا نام ہے، انفلیشن، رکی ہے مگر ڈیفلیشن، نہیں ہوئی یا جس حد تک ہونی چاہئے تھی اس حدتک نہیں ہوئی۔

    قیمتیں کم ہوئیں جیسے پٹرول 331روپوں سے اڑھائی سو روپے لٹر پر آ گیا اور ڈالر کے ساتھ شرح تبادلہ جو بہت ساری قیمتوں کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سارے لوگ دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت ڈالر کی قیمت زیادہ سے زیادہ اڑھائی سو ہونی چاہیے یا دو سو روپے تک واپس آنی چاہئے۔ یہ خود وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے کہ 22 فیصد سے 12 فیصد پر آنے والی شرح سود سنگل ڈیجٹ بلکہ 6 فیصد پر آنی چاہئے۔

    عوامی سطح پر بات کروں تو آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کچھ کمی ہوئی ہے مگر اس اضافے کے بعد جس نے عوام کی چیخیں نکلوا دی تھیں۔ آٹے کی قیمت کم کرنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار ہوا ہے اس پر کسان چیخ رہا ہے کہ اس کا منافع کم ہوگیا ہے یا وہ نقصان میں جا رہا ہے، بہرحال، کسان کو اب وہ منافع نہیں مل سکتا جو اس نے 2200 کی گندم کا ریٹ اگلے ہی برس 3900سو روپے لے کر کمایا او ر اس کے نتیجے میں پندرہ بیس ہزار مہینہ کمانے والے مزدور اور منشی نے تین ہزار کا بیس کلو کا تھیلا خریدا، یہ بھی اندھیر نگری تھی، ظلم تھا۔

    اگر ہم بجلی کی قیمتوں کا ہی موازنہ کریں تو بھاری بلوں سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنی پسلی دیکھتے ہوئے دوچار لاکھ سے پندرہ بیس لاکھ روپے تک کا سولر لگوا لیں، یہ ایک بار کا خرچ آپ کو بیس، پچیس سال کی بچت دے جائے گا مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سولر، حکومت کے گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے۔ سولر لگوانے والے صارفین حکومت کے بجلی کی خریداری ہی نہیں بلکہ ٹیکس کی وصولی کے بڑے نیٹ ورک سے بھی نکل رہے ہیں۔ ایک طرف گردشی قرضے ہیں جن کی ادائیگی بہرحال کنزیومر ہی کرتا ہے اور دوسری طرف سولر کی بجلی پر ٹیکس لگانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

    یہ حکومت سے بجلی بھی نہیں خریدتے اور حکومت کو ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے مگر حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ عوام اتنے پریشان ہیں کہ وہ سولر کی حوصلہ شکنی بھی نہیں کرسکتی، یہ بھی اس کی مہربانی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پچھلے برس ہم پاکستانیوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ سولر پینلز امپورٹ کئے۔ جیسے جیسے سولر بڑھتے چلے جائیں گے حکومتی ریونیو کم ہوتا چلا جائے گا اور پھر حکومت دوسرے ٹیکس لگا کے اسے پورا کرے گی۔

    وزیر خزانہ اورنگ زیب نے مہنگائی کے خاتمے کے لئے ایک اور اعلان کیا ہے کہ حکومت بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے بڑے ریلیف کا اہتمام کر رہی ہے۔ پاکستان میں اگر سرکاری ملازمین کی تعداد کو دیکھا جائے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی تعداد کسی طور پر 50 لاکھ سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ میں اس میں سرکاری اورنیم سرکاری دونوں ادارے شامل کر رہا ہوں لیکن اس کے مقابلے میں غیر سرکاری یعنی پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی تعداد ان سے پانچ، چھ گنا ہے یعنی کوئی اڑھائی، تین کروڑ کے لگ بھگ۔ یہ ایک رف آئیڈیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ایسے اعداد وشمار جاننے کے لئے کوئی مصدقہ طریقہ کار نہیں ہے۔ میں نے سوشل میڈیا ایپس پر سرچ کی تو یہ سرکاری ملازمین کی تعداد 25 لاکھ کے لگ بھگ سامنے آئی لیکن جب میں وفاق کے ساتھ صوبوں کے تعلیم، صحت جیسے اداروں کے ملازمین دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی یہ ریسرچ درست نہیں لگتی، یہ کم از کم اس سے دوگنا ہیں۔

    سرکاری ملازمین برا نہ منائیں مگر یہ سچ ہے کہ ان کی تنخواہیں پچھلے پانچ برسوں میں کم از کم 100فیصد بڑھ گئی ہیں اور اس سے پہلے ایک مرتبہ ان کی تنخواہوں میں سیدھا سادا پچاس فیصد اضافہ ہوگیا تھا مگرکیا ان سے چھ گنا زیادہ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوا ہے، ہرگز نہیں۔ میں ایسے اداروں کو جانتا ہوں جنہوں نے کورونا سے پہلے بھی تنخواہیں نہیں بڑھائی تھیں اور اس کے بعد بھی نہیں۔ ان کے دس برس میں اضافے بھی زیرو سے پندرہ بیس فیصدتک ہیں۔

    سرکاری ملازمین کو اضافے مل گئے، دکاندار اور رکشے والوں نے اپنے ریٹس بڑھا لیے مگر یہ نجی اداروں کے تین کروڑ ملازمین کہاں جائیں اور ان کے بارہ کروڑ گھر والے کہاں جائیں۔ ان کے لئے مہنگائی ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ صنعتیں لگیں، کاروبار بڑھیں، تجربہ کار لوگوں کی ڈیمانڈ ہو مگر کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابھی تک سرمایہ کاری اعلانات میں ہے اور اگر وہ اعلانات عمل میں ڈھلے بھی ہیں تو شائد دو، چار یا پانچ فیصد۔ وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزرائے اعلیٰ کو سوچنا ہوگا کہ پرائیویٹ اداروں کا ملازم مارا گیا ہے۔ وہ کم از کم اجرت 37 ہزار روپے مقرر کرتے ہیں مگر کتنے ادارے یہ اجرت دے رہے ہیں اور اس سے بھی بڑا معاملہ اور المیہ بے روزگاری ہے۔

    میں نے کہا کہ کاروبار بڑھنے چاہئیں کیونکہ میں اس پر قائل ہوں کہ حکومت خود کاروبار نہیں کرسکتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی میں کاروبار کی صلاحیت نہیں ہے اورنہ ہی اس کا مفاد۔ حکومت صرف ریگولیٹر کا کردارادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت اورعوام کی کمائی میں، کوئی مانے یا نہ مانے، بہت بڑا کردار رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا بھی ہے جو ستر کے قریب صنعتیں چلاتا ہے۔ کروڑوں مزدوروں کو مزدوری فراہم کرتا ہے چاہے وہ براہ راست مستری ہوں یالوہار، ترکھان، رنگساز اور ڈرائیور۔ کالے دھن کی روک تھام کے چکر میں اس شعبے کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہوا ہے کہ اس شعبے کے ناجائز منافع خوروں کو بھی حکومت ریگولیٹ نہیں کرسکی۔

    دوبئی سمیت ہر اچھے ریگولیشنز رکھنے والے ملک میں فائل کا دھندا نہیں ہوسکتا مگر یہاں اسی نام پر عوام کے اربوں اور کھربوں پراپرٹی مافیا نے ہڑپ کر لئے ہیں۔ اسی شعبے کو ریگولیٹ کر لیا جائے تو عوام کی بڑی تعداد کا روزگار اور رزق بحال کیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شہباز شریف اوران کی ٹیم بہت محنت کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ اعداد و شمار بہت اچھے ہیں، بہت خوش کن ہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ عوام کو اب تک ان اعداد وشمار کا فائدہ نہیں ملا جیسے سرمایہ کاری کے اعلانات، زرمبادلہ کے ذخائر، ریکارڈ ریمی ٹینسز، شرح سود میں دس پوائنٹس کی کمی وغیرہ۔