Wednesday, 18 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Maryam Nawaz Taraqi Ke Dushmano Ki Baat Na Sunen

    Maryam Nawaz Taraqi Ke Dushmano Ki Baat Na Sunen

    وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک، لاہور کی نہر کے ساتھ ساتھ، ییلو لائن منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جس کاکہنا ہے کہ وہ کسی بھی پراجیکٹ کے لئے نہر کے ساتھ ایک بھی درخت نہیں کٹنے دے گا۔ بظاہر وہ ماحولیات اور شجرکاری کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں یہ وہی گروہ ہے جو ہر دور میں لاہور کے ہر ترقیاتی منصوبے کا مخالف رہا ہے۔ یہ کام اس وقت شروع ہوا تھا جب لاہور کو جیل روڈ کی صورت میں پہلی بہترین سڑک مل رہی تھی اور اس وقت بھی یہ لوگ عدالت میں چلے گئے تھے، مہینوں ایل ڈی اے کی مشینری فوارہ چوک پر کھڑی رہی تھی اور لاہورئیے ان کی جان کو روتے رہے تھے۔

    میں یہ واضح کر دوں کہ میں شجر کاری کا مخالف نہیں۔ میں آج بھی جس گھر میں رہتا ہوں اس کے ایک تہائی پردرخت اور پودے موجود ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ بنتا چلا جا رہا ہے کہ گھر ایک کنال کا بھی ہو تواسے پورے کا پورا کنکریٹ سے بھر دو۔ لاہور میرا گھر ہے اور میں کیسے چاہوں گا کہ اس میں درخت نہ ہوں، یہاں چڑیاں چہچہاتی نہ ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ لاہور کی پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی جب ایک درخت کٹے تو اس کے بدلے دس درخت لگانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے عثمان بُزدار دور میں جب کوئی بھی محکمہ کام نہیں کر رہا تھا تو واحد پی ایچ اے تھی جو مصنوعی جنگل لگا رہی تھی لہٰذا جو ڈپیارٹمنٹ عمران خان اور عثمان بزدار کی ناقص ترین حکومت میں کام کرکے دکھا سکتا ہے اس پر اعتماد کرنا چاہئے۔

    جیل روڈ سے پہلے کینال روڈ کی بات کر لیتے ہیں۔ جب میاں نواز شریف وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے کینال روڈ کو ون وے کرنے کا منصوبہ دیا۔ اس وقت بھی پنجاب یونیورسٹی پر اسلامی جمعیت طلبہ کا طوطی بولتا تھا۔ جمعیت نے جہاں ہاسٹلز اور ڈپیارٹمنٹس کے الگ الگ ہونے کا ایشو اٹھایا اس کے ساتھ ہی کہا کہ وہ نہر پر لگے ہوئے درخت نہیں کٹنے دے گی۔ میں آج نہر سے گزرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر بہت برس پہلے نواز شریف اپنے ویژن سے اس مسئلے کو حل نہ کرتے تو لاہور بلاک ہوچکا ہوتا، یہاں کی سڑکوں پر گاڑیاں بمپر سے بمپر جوڑے کھڑی ہوتیں۔ میں نہر سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ا ب بھی لاہور کی کینال پر اتنا سبزہ اور درخت موجود ہیں کہ ان پر ویڈیوز بن سکتی ہیں اور اکثر بناتا بھی ہوں۔ درختوں کی بات کرنے والے اسی نوے فیصد لوگوں کے گھروں میں چلے جائیں مجال ہے کہ آپ کووہاں ایک بھی پودا یا درخت نظر آجائے جوزمین میں جڑیں گاڑھے کھڑا ہو۔ جیسے یہ گملوں میں اگے ہوئے دانشور ہیں، مصنوعی اور دو نمبر، اسی طرح کے یہ پولیٹیکل اور سوشل ایکٹیویسٹ ہیں، جعلی اور منافق، متعصب اور رجعت پسند۔

    سچی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کسی ترقیاتی منصوبے کی مخالفت کرنا اس کی لاگت میں اربوں، کھربوں روپوں کاا ضافہ کرنا ہے جیسے ایک گروہ اورنج لائن (ٹرین منصوبے) کے خلاف تاریخی عمارتوں کی حفاظت کی بنیاد پر میدان میں آ گیا تھا اور تاریخ میں عدلیہ کے بدترین کرداروں نے اس پر نہ صرف طویل حکم امتناعی دئیے رکھا بلکہ اس کے بعد فیصلہ بھی محفوظ رکھا جس کا نتیجہ اورنج لائن کی کاسٹ کم و بیش دوگنی ہونے کی صورت میں نظر آیا۔

    ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں میں نیا پاکستان بنانے والے نام نہاد سیاستدان بھی شامل ہیں جو اپنی کرتوتوں کے باعث اس وقت جیل میں ہیں۔ ان لوگوں نے موٹر وے کی بھی مخالفت کی اور یہاں تک کہا کہ اس میں چار سو ارب روپوں کی کرپشن کر لی گئی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے گورنر ہاؤس میں ایک میٹنگ میں بتایا کہ لاہور اسلام آباد کی موٹر وے چالیس ارب روپوں سے بھی کچھ کم میں ہی بنی تھی۔

    لاہور کی ترقی کے یہ مخالف شہباز شریف کی لاہور میں بنائی ہوئی ستائیس ارب روپوں کی میٹرو کو وسائل کا ضیاع کہتے تھے اور جنگلہ بس، پھر انہوں نے وہی میٹرو بس پشاور میں ایک سو ستائیس ارب روپوں میں بنائی اور لاہور والی سے بہت ناقص۔ تعمیر اور ترقی کے دشمن ایسے سیاستدان قوموں پر قدرت کا عذاب ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ربع صدی کے بعد پیپلزپارٹی کو موٹرویز کی ضرورت اور اہمیت سمجھ آ گئی ہے۔ آج وہ سکھر سے کراچی تک بہترین سفر کے لئے لاہور اسلام آباد موٹروے کے لئے لڑتی ہے تو مجھے بہت اچھی لگتی ہے، بہت پیاری لگتی ہے۔

    بہت سارے یہ بھی کہیں گے کہ لاہور میں ہی کیوں تو جواب ہے کہ میٹرو تو پنڈی، اسلا م آبادمیں بھی ہے، فیصل آباد میں بھی آ رہی ہے۔ پنجاب اس وقت واحد صوبہ ہے جس میں یکساں ترقی ہو رہی ہے۔ کیا آپ نے گوجرانوالہ کے فلائی اوورز، فیصل آباد کی کینال روڈ، ملتان کی میٹرو دیکھی ہے۔ لاہور ایک میٹروپولیٹین سٹی ہے جس کی اپنی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور باہر سے آنے والوں کے ساتھ دو کروڑ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔

    جب ہم کینال والے روٹ کو دیکھتے ہیں تو ٹھوکر سے شروع ہوجائیں، جناح ہسپتال، فیروز پور روڈ، جیل روڈ، مال روڈ، دھرمپورہ، فتح گڑھ وغیرہ سے گزرتے ہوئے رنگ روڈ کراس کر جائیں تو ارد گرد ایک پلاٹ بھی خالی نظر نہیں آتا۔ یہ مکمل طور پر آباد بلکہ گنجان آباد جگہیں ہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ اس پراجیکٹ کو جلو موڑ تک ہونا چاہئے، جی ٹی روڈ سے جڑا ہوا کیونکہ اب آگے بھی بہت ساری ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن چکیں۔ وہاں سے بھی بہت سارے ملازمین اور سٹوڈنٹس آتے بھی ہیں، جاتے بھی ہیں۔ اس سڑک پر کبھی آپ صبح آٹھ نو بجے موٹرسائیکلوں کے انبار دیکھیں، میں تو ان موٹرسائیکلوں کے سمندر میں گُم ہی ہوجاتا ہوں۔ اگر یہاں ایک اچھا ٹرانسپورٹ منصوبہ ہوگا تو یقینی طور پر یہ رش بھی کم ہوجائے گا۔

    لاہور کے اندر اور باہر کھمبیوں کی طرح اُگی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر آپ کی شکایات یا تحفظات کچھ بھی ہوں مگر یہ کریڈٹ ضرور دینا ہوگا کہ وہاں درخت اور پودے نظر آتے ہیں جو پرانے لاہور کی آبادیوں سے غائب ہوچکے۔ وہاں چڑیاں اور کُگیاں بھی ہیں اور کسی کسی جگہ تتلیاں بھی جبکہ اندرون لاہور راوی کے پل پر تو ہمیں چیلیں ہی اڑتی نظر آتی ہیں کیونکہ وہاں صدقے کے چیل گوشت کی فروخت نہیں روکی جا سکی۔

    مجھے اپنے حکمرانوں اور ماہرین پر پورا یقین ہے کہ وہ کینال سے کم سے کم درخت کٹنے دیں گے اور جتنے بھی کٹیں گے ہم ار د گرد اس کے دس گنا درخت لگا دیں گے۔ ایک مصروف پبلک روٹ پر سے کچھ درخت کٹ جائیں تو ہمارے پاس لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے جہاں ان کا متبادل دے سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے مریم نواز لاہور کے دشمنوں کے پروپیگنڈے اور چال میں نہیں آئیں گی اور ہماری عدالتیں بھی!