Wednesday, 04 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Imran Khan Ki Rehayi Ke Imkanat

    Imran Khan Ki Rehayi Ke Imkanat

    پاک بھارت جنگ لگی ہو یا ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہویعنی حالات کچھ بھی ہوں پی ٹی آئی کے حامیوں کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی رہائی ہے۔ ایک معروف تجزیہ کار جو نگران وزیراعلیٰ بھی رہ چکے، کہتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ کے موقعے پر بانی پی ٹی آئی کو جیل میں اس طرح بریفنگ دی گئی جس طرح وزیراعظم کو دی جاتی ہے۔ کوئی اسے تعریف سمجھے یا بدتعریفی، ہمارے کئی تجزیہ کار اپنی عمر اور تجرنے کا لحاظ کئے بغیر صدیق جان بننا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے تجزئیے اور خبریں پی ٹی آئی والوں کی رہائی کی امیدیں بڑھا دیتے ہیں مگر اب بہت سارے دو اڑھائی برس کی مار کھانے کے بعد منطقی بات سمجھنے کے قابل بھی ہوگئے ہیں۔

    پہلے مرحلے میں، میں اس خبر کو درست سمجھ لیتا ہوں کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں جنگ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تومیری نظر میں اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ سابق وزیراعظم اس وقت توشہ خانہ کی چوری سمیت دیگر مقدمات میں جیل میں موجود ہیں، ان کا سٹیٹس سزا یافتہ قیدی کا ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے سربراہ ہیں۔ جنگوں میں قومیں متحد ہوتی ہیں۔

    یہ المیہ رہا کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بھارت کی زبان بولتا رہا مگر کیا حکومت اور فوج کو بھی وہی غلطی کرنی چاہیے تھی جو پی ٹی آئی مسلسل کر رہی ہے یا اس کے سوشل میڈیا ٹرولز اس سے کروا رہے ہیں۔ اگر حکومت یا فوج کے کچھ افسروں نے اڈیالہ جیل میں جا کے بانی پی ٹی آئی کو بریفنگ دی تو سو فیصد درست کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بریفنگ ان کے عدالتی معاملات پر اثرانداز ہوسکتی ہے تو اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ یوں بھی پی ٹی آئی جنگ والی ٹرین مس کر چکی ہے۔ یہ جنگ پاکستان انتہائی عزت اور وقار کے ساتھ جیت چکا ہے اور اس موقعے پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا رویہ تو درست رہا مگر عوامی اور سوشل میڈیا کی سطح پر پی ٹی آئی بھی نریندر مودی کی طرح یہ جنگ ہار چکی ہے۔

    کوئی مانے یا نہ مانے، بھارت کو شکست فاش دینے سے وزیراعظم شہباز شریف اورسپہ سالار عاصم منیر کی پروفائل بہت اوپر چلی گئی ہے۔ یہ وہ کامیابی ہے جو گذشتہ نصف صدی میں کسی ایک اسلامی ملک کو بھی نہیں ملی کہ وہ اپنے دشمن، کافر ملک کے دانت کھٹے کر دے، اسے گھٹنوں کے بل گرا دے، وہ سیز فائر کی درخواستیں کرنے لگے کہ اب دنیا بھر میں مسلمان کہہ رہے ہیں کہ ہم نے فلسطین، شام، عراق، لبنان سمیت ہر جگہ مار ہی کھائی ہے، یہ عشروں بعد پہلا موقع آیا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دشمن کومارا ہے اور یہ کامیابی ہمیں ایک حافظ قرآن سپہ سالار کی قیادت میں ملی ہے جو قرآن پاک کی آیات کے بغیر اپنی گفتگو مکمل نہیں کرتا۔

    اس وقت پاکستان کی فوج اور برسراقتدار پولیٹیکل لیڈر شپ کے درمیان ایک مثالی ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس موقعے پراسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی نظر میں عمران خان کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی بنیادی طور پر سوشل میڈیا کی شیر ہے مگر وہ وہاں بھی اپنے ملک دشمن بیانئے کے ساتھ ڈھیر ہوگئی ہے۔ فوج اور حکومت نے پی ٹی آئی کی مدد کے بغیر ہی بلکہ آفتاب اقبالوں اور عادل راجائوں کی طرف سے بھارت کی زبان بولنے کے باوجود بیانئے اور میڈیا کے محاذ پر بھارت کو اس طرح ناک آؤٹ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے سوشل میڈیا مجاہدوں کے ایکس پر آٹھ ہزار اکاؤنٹس بند کروانے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ اس کی مقابلے کے میدان سے الگ دوڑ ہے، الگ شکست ہے۔

    پی ٹی آئی اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانئے کی داعی بنی ہوئی ہے مگر کیا وہ واقعی فوج کی سیاست سے مداخلت کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ وہ سیاسی جماعتوں کی بجائے فوج سے ہی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے اتنے مرعوب ہیں کہ انہوں نے کچھ جونیئر افسروں کی مبینہ بریفنگ کی خوشی میں ہی ناچ ناچ کے گھنگھرو توڑ لئے ہیں اور ابھی اس بریفنگ کی تصدیق باقی ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ پی ٹی آئی کا جمہوریت سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک، دو محاوروں میں ادرک یا زعفران سے کسی کا جوڑا گیا ہے۔ پی ٹی آئی والوں کی امیدیں ا س سے بھی بڑھی ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ وہ اسے غلط طور پر حکومت کی کمزوری سمجھ رہے ہیں۔

    حکومت بھارت کو شکست دینے سے پہلے ڈی چوک میں پی ٹی آئی کو بھی شکست دے چکی ہے جب اس کے اپنے تئیں بہادر ترین لیڈروں علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کو رات کے اندھیرے میں فرار ہونا اورپھر گھنٹوں بعد خیبرپختونخوا پہنچ کے نمودار ہونا پڑا تھا۔ میں نے اس سے پہلے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کی مخالفت کی تھی مگر یہاں بنیادی سوال مذاکرات کے ایجنڈے کا بھی ہے۔

    پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ ان کے بانی فوج اور حکومت سے کوئی این آر او نہیں لینا چاہتے تو میرا سوال ہے کہ پھر وہ مذاکرات ہی کیوں کر رہے ہیں۔ وہ اپنے لیڈر کی چوری اور بدعنوانی کے مقدمات میں جا کے عدالت میں بے گناہی ثابت کردیں اور اسے رہا کروا لیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنے انتخابی نتائج والے کاغذ لیں، اپنے حق میں نتیجہ ثابت کریں، ایک سو اسی سیٹیں پوری کریں اور اپنی حکومت بنا لیں مگر سچ تو یہ ہے کہ الیکشن کے بعد نتائج پر نظرثانی کی جتنی بھی درخواستیں گئی ہیں ان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی بار ہ سے تیرہ سیٹیں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی مزید ہار گئی ہیں اور ابھی پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب جیسے بھی اسٹے آرڈرز پر رکن قومی اسمبلی بنے بیٹھے ہیں۔

    بانی پی ٹی آئی کی عدالتوں میں بریت اور ضمانتوں کی درخواستوں کی تفصیل کوئی وکیل جانتا ہوگا، میں بطور سیاسی تجزیہ کار اتنا جانتا ہوں کہ جب جنگ کا ڈراوا دے کر عمران خان کی رہائی کی مہم چلائی جارہی تھی تب بھی یہی سوچا جا رہا تھا کہ اگر یہ اس نازک موقعے پربول پڑا تو قومی یکجہتی پارہ پارہ کرے گا، شیخ مجیب کی طرح بھارت کی زبان بولے گا، قوم کو تقسیم اور مایوس کرے گا سو اس کی ملاقاتوں پر بھی پابندی رہی۔

    یقین کیجئے کہیں رہائی کی کوئی صورت نہ پہلے بن رہی تھی نہ اب بن رہی ہے۔ میں شدت کے ساتھ فیض حمید کیس کے فیصلے کا منتظر ہوں اور بغیر کوئی پیشین گوئی کئے یاد کراوں گا کہ موصوف کو اہم حلقوں کی طرف سے نو مئی کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا رہا ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کو آئینی قرار دے چکی ہے، باقی آپ خود سیانے ہیں۔