Wednesday, 11 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Hum Ne Kai Jangen Jeeti Hain

    Hum Ne Kai Jangen Jeeti Hain

    آئی ایس پی آر نے بائیس اپریل کی دو پہر سے دس مئی کی شام تک ہونے والی بہت ساری جنگوں کو معرکہ حق، کا نام دیا ہے۔ بائیس اپریل کی دوپہرپہلگام فالس فلیگ آپریشن کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی بھارت کے ساتھ بیانئے کی ایک جنگ شروع ہوگئی تھی۔ پاکستان کی طرف سے دس کے لگ بھگ بہت بنیادی نوعیت کے سوال اٹھائے گئے تھے، الزامات کے ثبوت مانگے گئے تھے مگر بھارت کی طرف سے نہ کوئی ثبوت تھے اور نہ ہی جواب۔ ایک ہی رٹ تھی کہ پہلگام کی دہشت گردی میں پاکستان ملوث ہے۔

    اس پہلی جنگ میں کامیابی اس وقت ملی تھی جب دنیا نے بھارت کے الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ خود امریکہ کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ اس پر کوئی پوزیشن نہیں لے رہے۔ پاکستان نے بھارت کو پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کر دی تھی جس نے پانسہ پلٹ دیا۔ امریکہ سے لے کر چین کر ہر ملک اس پیشکش کی حمایت کی تھی مگر بھارت یکطرفہ طور پر جنگی جنون بڑھا رہا تھا۔

    پاکستان نے جنگ کے اسی مرحلے میں بھارت کے اندر بڑی حمایت جیتی تھی۔ یہ شائد تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ بھارتی عوام نے اپنی قیادت کو جھوٹا قرار دیا۔ ا س الزام کے سیاسی مفادات کو اجاگر کیا جیسے بھارتی ریاست بہار کی گلوکارہ نیہا سنگھ راٹھور یا مشرقی پنجاب کی گلوکارہ زارا گِل جس نے اپنے گانے میں واضح طور پر پاکستان کو مردہ باد کہنے سے انکار کر دیا اور وہ گانا وائرل ہوگیا۔ اسی طرح گوا، بہار اور جموں وکشمیر کے گورنر رہنے والے ستیہ پال ملک کے تہلکہ خیز انکشافات، جس میں انہوں نے پلوامہ کے بعد پہلگام دہشت گردی میں بھی نریندر مودی کے الزامات کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اسی موقعے پرسکھ فار جسٹس کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں بھی سامنے آئے جنہوں نے پٹیالہ آرمی کینٹ کے باہر وہ وال چاکنگ دکھا دی جو خالصتان کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعروں کے ساتھ کی گئی تھی۔

    ہم نے بہت ساری وائرل ویڈیوز میں دیکھا کہ بھارت کے نوجوان پہلگام واقعے پر ٹی وی چینلز کے اینکرز کے سامنے پاکستان پر الزام تراشی کی مخالفت کر رہے تھے۔ خود مقبوضہ کشمیر کے اندر لال چوک میں کھڑے ہو کے کشمیری کہہ رہے تھے کہ اس واقعے میں نہ کشمیری ملوث ہیں نہ پاکستانی۔ اگر میں عوام کی عوام سے جنگ کی بات کروں تو پاکستانی اس میں اپنی بہادری اور زندہ دلی سے جیتے۔ میں نے دیکھا کہ بھارتی عوام ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی سیٹی سن کر بھی بنچوں کے نیچے چھپ جاتے تھے اور پاکستانی دیہاتی عوام اپنے سامنے الفتح ون سے حملے کرواتے تھے، ہمارے نوجوان ایسے شیر دل تھے کہ اپنی بندوقوں سے بھارتی ڈرونوں پر فائرنگ کرتے تھے، بھارت کے حملہ کئے ڈرون اپنی ون ٹوفائیو کی ٹینکی رکھ کر بھاگ نکلتے تھے۔

    اس جنگ میں پاکستان کے سائبر ایکسپرٹس نے بھارتیوں کا غرور توڑا کہ وہ سائبر ورلڈ کے لیڈر ہیں، انٹرنیشنل کمپنیوں کو لیڈ کرتے ہیں۔ پاکستانیوں نے ستر فیصد انڈیا کی بجلی بند کر دی، بی جے پی تک کی ویب سائٹس اڑا دیں۔

    اک جنگ ہمت، جرأت اور بہادری کی تھی توایک جنگ سفارتکاری کی بھی تھی۔ پاکستان کے آرمی چیف سے کوئی یہ فقرے منسوب کرنے کی جرأت نہیں کر رہا تھا کہ پاکستان کی جیپوں میں ٹینکوں کے لئے پٹرول تک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی وزیراعظم یہ کہہ رہا تھا کہ میں کیا کروں، کیا میں بھارت پر حملہ کردوں۔ وزیراعظم سے وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات تک اور آرمی چیف سے ڈی جی آئی ایس آئی تک سب عزم و استحکام کے پہاڑ تھے۔ قوم کو حوصلہ دے رہے تھے۔ جہاں تک بات سفارتکاری کی ہے تو یہ پہلے ہی کہا جا چکا۔ یہ ایسی کامیاب جنگ تھی کہ اس میں امریکہ سے چین تک سب پاکستان کے موقف کی حمایت کررہے تھے۔

    یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے ساتھ ترکی، سعودی عرب، ایران اور آذر بائیجان جیسے دوست ڈٹ کر کھڑے تھے۔ ان ممالک نے بالخصوص ترکی نے تو ایسا بھائی چارہ دکھایا کہ اس وقت بھارت والے اس کی سیاحت کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ایران کے وزیر خارجہ اور سعودی عرب کے وزیر مملکت اپنی تمام تر مصروفیات کو منسوخ کرکے ثالثی کے لئے دورے کر رہے تھے۔ مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب عمران خان کے دور میں بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے کشمیر کو اپنا آئینی حصہ بنا لیا تھا تب بھی ہمیں عالمی برادری سے ایسی حمایت نہیں ملی تھی حتیٰ کہ خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی۔ اس وقت کا وزیراعظم ایک ٹانگ پر دھوپ میں آدھا گھنٹہ کھڑا ہو کے خاموش ہوگیا تھا اور آج جب ہم پر الزام تھا کہ ہم نے دہشت گردی کی مگر پوری دنیا ہمارے ساتھ تھی، سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت رکھنے والی تمام قوتیں بھی۔

    ایک جنگ پاکستان اور ہندوستان کے میڈیا کے درمیان بھی تھی اورمجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہندوستان کا میڈیا یہ جنگ بری طرح ہا ر گیا۔ وہ صرف ہمارے مقابلے میں اطلاعات کی درست فراہمی کی جنگ ہی نہیں ہارا بلکہ وہ اپنے عوام میں عزت اور ساکھ بھی ہار گیا۔ ہم نے دیکھا کہ بھارت کا کوئی بھی چینل چاہے وہ زی نیوز تھا یا انڈیا ٹی وی، آج تک تھا یا ٹی وی نائن سمیت کوئی بھی، وہ سب کے سب جھوٹ بولتے رہے، ہذیان بکتے رہے۔

    انہوں نے کراچی کی پورٹ تباہ کروا دی، لاہور میں سی پورٹ بنوا کے اس پر قبضہ کروا دیا، سرگودھا سمیت تمام ائیربیسز پر حملے کروا دئیے اور پشاور سمیت کئی شہروں میں دھماکے مگر دوسری طرف پاکستان کامیڈیا تھا جس کی رہنمائی سیاسی محاذ پر وفاقی وزیر اطلاعات برادرم عطا اللہ تارڑ کر رہے تھے، ان کے ساتھ ہمارے دوست بدر شہباز، حامد فلکی اور دیگر تھے اور دوسری طرف فوجی محاذ پر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کر رہے تھے۔ یہ بات ریکارڈ کی ہے کہ بھارتی میڈیا کی کوئی خبر درست نہیں نکلی اور پاکستانی میڈیا کی کوئی خبر غلط نہیں نکلی کیونکہ پاکستان والوں کے پاس ویریفائیڈ سورسز، تھے جبکہ انڈیا والوں کے پاس محض سٹارپلس کے ڈراموں جیسے ڈائیلاگ تھے، دعوے تھے، نعرے تھے۔ سچ تو یہ ہے اس معرکے میں بھارت کی صحافت نے آتما ہتھیاکر لی ہے۔

    یقین کیجئے کہ ہماری ہتھیاروں اور جہازوں والی جنگ سب سے آخری تھی اگرچہ وہی سب سے بھاری اور سب سے اصلی جنگ تھی۔ جس میں ہمارے پائلٹوں نے سیدھے موت کے منہ میں پروازیں کیں۔ رافیل سے ایس فو ر ہنڈرڈ کی تباہی تک سب ریکارڈ پر آ چکا، اسے کیا دہراؤں مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ بھارت خود ہی یہ جنگ نہیں ہارا بلکہ اس نے اپنے ساتھ یہ جنگ فرانس، روس اور اسرائیل کو بھی ہروا دی بالترتیب ان کے طیارے، دفاعی نظام اور ڈرون تباہ کروا کے۔

    ہم اس جنگ میں صرف ایک محاذ پر شرمندہ ہوئے اور وہ یوتھیوں اور ففتھیوں کا محاذ تھا یعنی عادل راجوں اور آفتاب اقبالوں کا محاذ۔ یہ وہ بے شرم طبقہ ہے جس کی ترجیحات میں ایمان اور وطن دونوں پیچھے جا چکے مگر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہار گئے، ایکسپوز ہو گئے۔