Wednesday, 11 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. General Asim Munir Field Marshal Kyun?

    General Asim Munir Field Marshal Kyun?

    ہم لوگ جو فوج کے کردار کے معترف ہیں انہیں جنرل سید عاصم منیر کے فیلڈ مارشل کے عہدے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ میں نے تو دس مئی کی شام ہی ایکس پر تجویز دے دی تھی کہ آرمی چیف کو ملک کے بدترین دشمن کودندان شکن شکست دینے کے بعد یہ اعزاز دے دینا چاہئے۔

    میری تجویز یہ بھی تھی کہ وہ تادیر آرمی چیف کے عہدے پر رہنے کے بھی حقدار ہیں جس پر ایک طرح سے پہلے ہی عمل ہو چکا کہ تینوں فورسز کے سربراہوں کی مدت ملازمت نہ صرف پانچ برس ہو چکی بلکہ انہیں آئینی اور قانونی طور پر ایک مدت ملازمت کی توسیع بھی مل سکتی ہے یعنی وہ دس برس تک بری، بحری اور ہوائی فوج کے سربراہ رہ سکتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر کوئی قانونی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے لئے دو ہی شرائط ہیں، پہلی یہ کہ انہوں نے مختلف ڈویژنز کی کمانڈ کی ہویعنی وسیع تجربہ ہو اور دوسرے یہ کہ انہوں نے فوج کے سربراہ کے طور پر جنگ جیتی ہو۔

    پاکستان اب تک بھارت سے تین جنگیں جیت چکا ہے۔ پہلی جنگ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی اورہمارے غیر رسمی فوجیوں نے کشمیر کا ایک حصہ بھارت سے آزاد کروا لیا تھا۔ بھارت اس فتح کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں گیا، استصواب رائے کا وعدہ کیا جس پر ہم نے جنگ روک دی مگر بھار ت نے آج تک وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ پانچ، چھ برس پہلے ہمارے ہاں ایک کمزور حکومت پا کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پائوں تلے روندتے کشمیر کو اپنا آئینی حصہ قرار دے دیا۔ ہم نے دوسری جنگ پینسٹھ کی جیتی اور اب تیسری دس مئی 2025ء کو۔

    جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل کے عہدے کے اس لئے اہل قرار پاتے ہیں کہ ان کی قیادت میں افواج نے اپنے سے چھ گنا آبادی اور معیشت والے ملک، آٹھ گنا بجٹ والی فوج کو صرف چار گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک ایسی شاندارمگرروایتی یعنی غیر ایٹمی جنگ تھی جس میں ماڈرن وار فئیر کے نئے باب رقم کر دئیے گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف، جو کابینہ میں جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے کے لئے تجویز کرنے والے ہیں، کہتے ہیں کہ دنیا بھر کی افواج اس جنگ کو اپنے ملٹری کالجز کے نصاب میں شامل کریں گی جس میں پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی اور طیاروں کی مدد سے فرانسیسی جدید ترین فوجی جہاز ہی نہیں، روس کا وہ ائیرڈیفنس سسٹم بھی ناکارہ کر دیا جو انڈیانے امریکہ کو باقاعدہ ناراض کرکے خریدا تھا۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور ڈرونز کی تباہی اس سے الگ ہے۔ اسی جنگ کے بعد ائیرچیف مارشل ظہیر احمد بابر کو بھی مدت ملازمت میں توسیع دی گئی ہے جو ان کی مہارت اور کارکردگی کا حقیر سا اعتراف ہے۔

    میں، ذاتی طور پر، جنرل عاصم منیر کومحض جنگ جیتنے کی وجہ سے فیلڈ مارشل کے اعزاز کا حقدار نہیں سمجھتا حالانکہ اس کے لئے بنیادی اور قانونی ضرورت صرف یہی تھی۔ میں ان کے کردار کو زیادہ وسیع اور جامع پاتا ہوں۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے ایک وزیراعظم کی ناراضی کی پرواہ کئے بغیر ان کے سامنے ان کے قریب ترین لوگوں کی کرپشن کی رپورٹس اور شواہد رکھ دئیے۔ یہ ایک انتہائی بہادر اور محب وطن پروفیشنل ہی کر سکتا تھا۔ انہوں نے نہ ملازمت کی پرواہ کی نہ عہدے کی۔ وہ حافظ قرآن ہیں اور ہر تقریر اور گفتگو کو قرآنی آیات سے مزین کرتے ہیں۔

    میرا یقین ہے کہ خدا ایسے مجاہدوں کو ضرور اجر عطا فرماتا ہے۔ یہ بات بھارت بھی تسلیم کر رہا ہے کہ جنرل عاصم منیر ایک انتہائی پیشہ ور فوجی ہیں اور خوف ان کو چھُو کر بھی نہیں گزرا۔ میں اگر ان کے کردار کی تشریح میں جائوں تو میرے پاس اضافی شواہد اور دلائل موجود ہیں کہ انہوں نے سمگلنگ کا خاتمہ کیا اور واقفان حال جانتے ہیں کہ یہ کسی بھی فوجی سربراہ کے لئے کتنا بڑا ٹاسک ہوسکتا تھا حتیٰ کہ وہ جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے نیکسس کی مدد سے ہونے والے سیاسی احتجاجوں سے بھی دباو میں نہیں آئے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی مافیا کے پریشرمیں بھی نہیں آئے جو اپنی فائلیں کچھ صحافیوں کے ذریعے ہمیشہ طاقت کے ایوانوں میں پہنچا دیتے تھے سو وہ مافیا بھی فرارہونے پر مجبور ہوئے اور وہ اینکرز بھی ناراض، جن کی دیہاڑیاں ماری گئیں۔

    بات یہاں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جنرل عاصم منیر نے بطور آرمی چیف پاکستان کو معاشی موت سے بچانے کے لئے جو کردارادا کیا اس کی گواہی سب دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان وہ بارودی سرنگیں بچھا گیا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہوجاتا۔ ہمارے دوست ممالک ہم سے ناراض تھے اور عالمی مالیاتی ادارے معاہدے توڑنے پر برہم۔ یہاں وزیراعظم شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر نے ایک ٹیم بن کے کام کیا اور پاکستان میں وہ تبدیلی لے آئے جسے آج اقتصادی ماہرین معاشی معجزے کے طورپر بیان کر رہے ہیں۔

    ایس آئی ایف سی کے قیام اور کردار میں سپہ سالار کا ویژن بنیاد تھا۔ اس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی گئی، سرخ فیتے کا خاتمہ کیا گیا اور انہی تمام اقدامات کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے نئے ریکارڈ قائم کئے، شرح سود پہلے سے آدھی ہوگئی، مہنگائی میں اضافہ اڑتیس فیصد سے کم ہو کے ایک، دو فیصد پر آ گیا۔ یقینی طور پر اس پورے ماحول کو بنانے پر مجھے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بہترین آئینی کردار اور غیر معمولی حمایت کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کویقینی بنایا اور اس خوفناک تاریخی عدالتی کردار کو آئینی بنایا جو وزیراعظم تک کھا جایا کرتا تھا۔

    بات فوجی اور اقتصادی میدان ہی نہیں بلکہ بہت ساروں کے سامنے جنرل عاصم منیر کا ایک اور روایت شکن کردار اس طرح آشکار نہیں جس طرح ہونا چاہئے تھا۔ میں نو مئی کے شرمناک حملوں اور اس جیسے بہت سارے دوسرے ریاست دشمن بلنڈرزکی بات کر رہا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر نو مئی کے حملے ماضی کے کسی آرمی چیف کے دور میں ہوئے ہوتے تو اسی وقت مارشل لا لگ گیا ہوتا اور ایسے حملے کرنے والے کسی بھی دوسرے ملک میں ناکام بغاوت کے ذمے داروں کے طور پرسڑکوں پر ہی بھون کے رکھ دئیے گئے ہوتے مگر جنرل عاصم منیرنے اپنے ردعمل کو تدبرا ور تحمل کے ساتھ آئینی، قانونی اور اخلاقی حدود میں رکھا۔

    آج سانحے کے دوبرس گزر جانے کے باوجود پاک فوج کے سربراہ اور ترجمان دونوں ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ذمے داروں کو عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق سزا دیں۔ وہ قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ اور مقدمات کے لئے عدالتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار ورغلانے کے باوجود سیاست اور سیاسی مذاکرات سے فوج کا دور رہنا ایک انقلاب ہے جو جنرل صاحب لائے ہیں۔ نو مئی تو ایک بہت بڑا سانحہ ہے ہم نے تواس سے بہت چھوٹے چھوٹے واقعات پر آئین اور جمہوریت کو سمیٹے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔