Saturday, 14 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Muhammad Irfan Nadeem
    4. 21Wi Sadi Ka Hitler

    21Wi Sadi Ka Hitler

    معلوم انسانی تاریخ میں بعض ایسے افراد نمودار ہوئے ہیں جن کا وجود سراپا فتنہ و فساد تھا۔ بظاہر وہ ہم جیسے عام انسان دکھائی دیتے تھے لیکن ان کی شخصیت ایک پوری قوم، ایک تہذیب اور کئی نسلوں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بہت پہلے یہ کردار چنگیز خان اور ہلاکو خان کے ساتھ منسوب تھا، بیسویں صدی میں یہ کردار ایڈولف ہٹلر کے حصے میں آیا اور اکیسویں صدی میں اس کی روح نے نریندر مودی کے جسم میں حلول کیا ہے۔ اگرچہ وقت، مقام اور انداز میں فرق ضرور ہے مگر ہٹلر اور مودی کی نفسیات، ان کی سیاست، ان کے خواب اور ان کے جرائم کا ڈھانچہ حیرت انگیز حد تک یکساں ہے۔

    ہٹلر نے دنیا کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا اور نسل کشی کے بدترین ریکارڈ قائم کیے اور آج نریندر مودی بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ ہٹلر کوئی غیر معمولی ذہانت کا حامل انسان نہیں تھا، وہ معمولی پینٹر تھا اور اپنے مایوس کن ماضی کو تعصب، نفرت اور فاشزم کی طاقت سے بدلنے کا خواہاں تھا۔ اسی طرح نریندر مودی بھی کوئی اعلیٰ دماغ یا مدبر سیاستدان نہیں ہے، وہ ایک عام چائے فروش تھا، گجرات کا وزیرِ اعلیٰ بنا اور پھر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوا۔ لیکن اس کی سیاست کی بنیاد وہی ہے جو ہٹلر کی تھی، نسلی برتری، اقلیت دشمنی، مذہب کو سیاسی ہتھیار بنانا اور جنگی ہیجان۔

    ہٹلر نے اپنی نسل پرستی کو آریائی برتری کے نظریے میں ڈھالا۔ اس نظریے کے تحت تمام غیر آریائی اقوام یہودی، سلاف، روما حتیٰ کہ یورپی ممالک کے باشندوں کو بھی انسان ہونے کے درجے سے نیچے سمجھا گیا۔ یہی نظریہ جب ریاستی طاقت سے جُڑ گیا تو ہولو کاسٹ جیسے مظاہر وجود میں آئے۔ نریندر مودی کے پاس بھی ایسا ہی ایک نظریہ "ہندوتوا"ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور باقی سب بالخصوص مسلمان، یہاں غاصب یا درانداز ہیں۔ گجرات فسادات میں مسلمانوں کا قتلِ عام اسی نظریے کی ایک جھلک تھی۔

    ہٹلر نے SS اور Gestapo جیسی شدت پسند تنظیموں کو ریاستی سرپرستی فراہم کی تھی ویسے ہی مودی نے آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسے شدت پسند گروہوں کو ریاستی سرپرستی فراہم کی ہے۔ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کا مقصد صرف ایک ہے کہ اقلیتوں کو خوف، تشدد اور بے بسی کے ذریعے گوشہ نشین یا مکمل ختم کر دینا ہے۔ انہی سماج دشمن پالیسیوں کی وجہ سے نریندر مودی حکومت بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے سبب مسلسل تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔

    اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں بارہا بھارت سمیت کشمیر میں مواصلاتی لاک ڈاؤن، ماورائے عدالت قتل، جبری گرفتاریوں اور اظہارِ رائے پر پابندی جیسے اقدامات پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ اسی وجہ سے 2005 میں امریکہ نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا اور یہ دنیا کے ایک جمہوری ملک کے لیے غیر معمولی واقعہ تھا۔ گویا آج سے بہت پہلے اس شخص کو عالمی سطح پر خطرناک تصور کر لیا گیا تھا۔

    ہٹلر کی تباہی کا نقطہ عروج دوسری عالمی جنگ تھی جو اس کے غرور، فاشزم اور جنگی جنون کا نتیجہ تھی۔ اس جنگ نے کروڑوں انسانوں کی جان لی تھی، یورپ ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا اور خود ہٹلر کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ اس کی سلطنت ختم ہوگئی ہے تو اس نے اپنی بیوی ایوا براؤن اور اپنے خاندان سمیت خودکشی کر لی تھی۔

    مودی کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد اور نہ ہی کوئی خاندانی وابستگی۔ اس لیے یہ ایٹمی جنگ کے خطرات کو بھی نظرانداز کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ اگر ڈوبے گا تو اپنے ساتھ کروڑوں انسانوں کو بھی لے کر ڈوبے گا، اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں سوائے اقتدار کے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ سے قبل مودی نے عام انتخابات کے دوران کھلے عام پاکستان کو للکارا۔

    بار بار اپنے جلسوں میں فوجی حملوں کی دھمکیاں دیں اور یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا اشارہ بھی دیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک کے رہنما کے منہ سے نکل رہا تھا جو خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ مودی کی حالیہ انتخابی مہم پاکستان مخالف بیانیے پر مرکوز رہی ہے۔ اس نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جنگی نعروں، سرجیکل سٹرائیکس اور فرضی کامیابیوں کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

    پلوامہ واقعے کے بعد بالاکوٹ حملہ ہو یا پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی سرجیکل سٹرائیک، ان سب جھوٹے واقعات کو مودی نے میڈیا پر ایسے بیچا جیسے کوئی فلم بنائی جا رہی ہو اور کوئی فلمی ہیرو اپنے ملک کو بچا رہا ہو۔ یہ وہی پراپیگنڈہ حکمت عملی تھی جو ہٹلر نے اپنے آخری دنوں میں جرمن عوام کے ساتھ استعمال کی یعنی جھوٹ اتنا بولو کہ وہ سچ دکھائی دینے لگے۔ مودی نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو غداری سے جوڑا، ہر سوال کرنے والے کو دشمن کا ایجنٹ کہا اور اپنی واضح شکست کو فتح کی زبان میں بیان کیا۔

    افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی میڈیا مودی کے لیے صرف ایک پراپیگنڈہ مشین بنا رہا۔ وہی اینکرز جو کبھی امن کی بات کرتے تھے مودی کے اشارے پر نیشنلزم کی دھنیں بجاتے رہے، پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کرتے رہے اور اپنے عوام کو جھوٹی فتح کا نشہ بیچتے رہے۔ حالیہ جنگ میں انڈین میڈیا بالکل وہی کردار ادا کر تا رہا جو نازی جرمنی میں جوزف گوئبلز نے کیا تھا۔ سچ کا قتل، جھوٹ کی تکرار اور نفرت کا پرچار۔

    یہ وقت ہے کہ عالمی برادری مودی کی سیاست کے اس خطرناک پہلو کو پہچانے۔ دنیا نے ہٹلر کو پہچاننے میں دیر کر دی تھی اور اس کی قیمت لاکھوں انسانی جانوں کی صورت میں ادا کی گئی۔ آج بھی اگر مودی کی نسل پرستی، مذہبی جنون اور سیاسی فاشزم کو نظرانداز کیا گیا تو تاریخ خود کو دہرائے گی اور اس بار پہلے سے زیادہ شدت سے دہرائے گی اور تب شاید واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔

    عالمی برادری، خطے کے ممالک اور خصوصاً پاک انڈیا عوام کو اس منظرنامے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مودی کی فسطائیت کے خلاف صرف پاکستان نہیں انڈین عوام کو بھی میدان میں نکلنا ہوگا۔ خصوصاً پاکستان کو صرف سرحدوں پر نہیں سفارتی میدان، میڈیا کا محاذ اور فکری سطح پر بھی مزاحمت کرنا ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہٹلر خود تو مر گیا مگر اس کے انسانیت کو لگائے گئے زخم آج بھی تازہ ہیں۔