ہماری سیاسی تاریخ زیادہ قابل رشک نہیں ہے، بے بسی کی وجہ یہی ہے کہ اس نے غلامی کی کوکھ سے جنم لیا ہے، جمہوری طرز پر قائم اس ریاست میں ابتداء ہی سے سیاسی مخالفین پر ناجائز مقدمات قائم کرنے اور غیر جمہوری رویے کا ایسا آغاز ہوا کہ شرمندگی کے سوا ہمارے سیاسی دامن میں کچھ بھی نہیں، یہ مقدمات کسی افسر شاہی، انگریز بہادرنے درج نہیں کرائے تھے بلکہ ان "جید" سیاسی لیڈران اور آمروں نے اپنے سیاسی مخالفین پر ایف آئی آر کٹوائیں جو انکے ظرف کا پتہ دیتی ہیں، ان کے اسماء گرامی پڑھ کرکف تاسف ملنے کو جی چاہتا ہے۔
روایت کی طرح ڈالنے والے سب سے پہلے آمر ایوب خاں تھے جنہوں نے قائد عوام کے خلاف ٹریکٹر کے ناجائز استعمال کا مقدمہ درج کرایا، حالانکہ آمر کو "ڈ یڈی "کہنے کا اعزاز بھی انھیں ملا، بھٹو نے بھی اس سے سبق نہیں سیکھا اور بھینس چوری کا مقدمہ گجرات کے چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کے خلاف درج کرایا، نہ صرف مقدمہ درج کرایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر ضلع بدر کیا، جنرل ضیاء کے دور میں، بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا، سیاسی کارکنان پر کوڑے برسائے گئے، قائدین پابند سلاسل ہوئے اور ان پر تشدد کیا گیا۔
اسی دور میں سابق گورنر پنجاب مصطفی کھر کے خلاف پانی چوری جبکہ پیپلز پارٹی کے دور میں اویس لغاری کے خلاف اسی جرم میں مقدمہ بنا، مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی قتل ہوئے، کپتان کے دور میں کالم نگار اور سینیٹر محترم عرفان صدیقی پر اپنے بیٹے کے مکان کا کرایہ نامہ تھانے میں جمع نہ کرانے پر صرف مقدمہ درج نہیں ہوا بلکہ انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ مشرف دور میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ بنا، مذکورہ بالا مقدمات میں سے کوئی بھی ثابت نہ ہوا، محض وقت اور پیسے کا زیاں ہوا۔
سیاسی انتقام کی سیریز کی یہ ایک جھلک ہے مگر تشدد پر مبنی بہت سے واقعات ہماری سیاسی تاریخ کے وہ سیاہ اوراق ہیں جن کا تذکرہ عبد الستار اعوان کی کتاب "اوراق زندگی" میں ملتا ہے، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو بہت ملال ہے کہ یہاں سیاسی، انسانی حقوق پامال کئے جاتے ہیں معروف کالم نگار حافظ شفیق الرحمان کے انٹرویو کی وساطت سے پہلے آمر اور ان کے دادا کے عہدکا واقعہ ان کے گوش گزار ہے، جب وہ جاوید ہاشمی کے ساتھ ستر کی دہائی میں شاہی قلعہ میں محبوس تھے، تو ایک اہلکار نے وہ کمرہ دکھایا، جس کی دیوارمیں لوہے کی ایک بڑی کیل نما میخ بڑی مضبوطی سے پوست تھی، اس کے نیچے چوکی یا سیڑھی نما چیز تھی۔
ایوب خاں کے دور میں ترقی پسند راہنماء حسن ناصر کو اسی مقام پر کھڑا کرکے پیچھے سے پوری قوت سے دھکا دیا گیا کہ لوہے کی سلاخ اس کی گردن کے آر پار ہوگئی، کچھ دنوں بعد ترقی پسند راہنما ا نتقال کر گیا۔ عمر ایوب اس فعل کوانسانی حقوق کی کس صف میں شامل کریں گے؟
محترم حافظ شفیق کے بقول اہلکاروں نے وہ کمرے بھی دکھائے جس میں حنیف رامے کو بھٹو کے حکم پر اس کے لباس کی تقدیس کو پامال کرکے شرمناک تشدد کیا گیا، جماعت اسلامی کے محترم امیر میاں طفیل محمد مرحوم پر غضب اور شرمناک تشدد کیا گیا، پیپلزپارٹی کا پہلا منشور تحریر کرنے والے جے اے رحیم کے بیٹے کے ساتھ بھٹو کی سپیشل فورس کی طرف سے اسکی عزت پامالی کی غیر اخلاقی حرکت اس کے باپ کے سامنے کی گئی، اس تذلیل کی کوئی مثال دنیا میں پیش نہیں کی جاسکتی، یہ سب قائد عوام کے حکم پر ہوا، جو کہتے تھے جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
سیاسی انتقام کے اعتبار سے مسڑبھٹو کا جمہوری عہد سب سے تاریک دور کہلاتا ہے۔ ان کے غضب کا نشانہ بننے والے خواجہ سعد رفیق کے والد گرامی بھی ان کے دور قتل ہوئے، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر بھی اس دور میں شہید ہوئے، کہا جاتا ہے کہ بھٹو دور میں سیاسی مخالفین صرف لاشیں اٹھاتے رہے۔
جنرل مشرف دور میں اپنے ساتھ ہونے والے شرمناک تشدد کا ذکرمحترم خواجہ سعد رفیق نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کیا، بقول ان کے انکا جرم صرف یہ تھا کہ معزول کی جانے والی جمہوری حکومت کے وزیر اور میاں برادران کے قریب سمجھے جاتے تھے، جس طرح ان پر تشدد کیا گیا، یہ ایک الگ داستان ہے مگر کرب ناک وہ لمحہ تھا کہ انھیں اس وقت پابند سلاسل رکھا گیا جب انکی والدہ ماجدہ موت حیات کی کشمکش میں تھیں انھیں ہسپتال جانے کی جب اجازت ملی تو وہ کومہ میں چلی گئیں، اپنی ماں سے وہ بات نہ کر سکے، یہی سلوک شریف برادران کے ساتھ جمہوری دور میں ہوا جب بڑے میاں کی اہلیہ بستر مرگ پرVentilator پر تھیں تو میاں نواز شریف معمولی مقدمہ میں جیل میں قید تھے، اسکی وفات کے بعد جنازے میں شرکت کے لئے پیرول پر رہا کیا گیا، مشرف دور میں بھی میاں برادران زیر عتاب رہے۔
بھٹو بہت مقبول ترین لیڈر تھے مگر آمرانہ دور میں انکے اہل خانہ اور پارٹی کارکنان کو ان کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ دی، سیاست کا یہ وہ تاریک چہرہ ہے، ہر دور میں اس فعل کو ناپسند کیا جائے گا اور اسکی مذمت کی جاتی رہے گی۔
اس رویہ کے منفی اثرات گراس روٹ لیول تک پہنچے ہیں، گلی محلے کا کونسلر بھی اپنے مخالف کو برداشت کرنے کا روادار نہیں، بہت سے سیاسی قائدین انتخاب میں شکست کے بعد سیاسی انتقام پر اتر آتے ہیں، پارلیمنٹرین نے ہی ناجائز مقدمات سے تھانہ کلچرآباد کر رکھا ہے، بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت ہوا مگریہ معاہدہ بھی سیاسی انتقام کو روکنے میں ناکام رہا، سیاسی بلیک میلنگ کے نام پراحتساب بھی گناہ بے لذت جیسی مشق ثابت ہوا، اربہا روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام کو بھی کچھ نہ ملا، مگرکچھ مخصوص افراد کا مفاد ہی وابستہ رہا۔
گذشتہ پارلیمانی عہد میں باہم سیاسی کشمکش نے ترقی کی راہ روک دی، جس کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے، اس وقت بڑی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار ہیں، کچھ ان کے اتحادی ہیں، سیاسی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرکے ہی قومی ترقی ممکن ہو سکتی ہے، قوم نے متحد ہوکر جس انداز میں مسلح افواج اور سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ لڑ کر انڈیا سے بڑی جنگ جیتی ہے، اس جذبہ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن، تحریک انصا ف اوردیگر قومی سیاسی جماعتوں او ر سابقہ آمروں کی اولادوں میں سے کون اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں پر قوم او رسیاسی مخالفین سے معافی مانگتاہے، تاکہ سیاسی انتقام کی آگ کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔