Monday, 16 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Khalid Mahmood Faisal
    4. Sanatkar Ke Tajurbat Aur Mushahidat

    Sanatkar Ke Tajurbat Aur Mushahidat

    پچاس کی دہائی میں سریاں والا بازار رنگ محل لاہور میں آنکھ کھولنے والا نوجوان اس خوش قسمت خاندان میں پیدا ہوا، جو کاروبار سے وابستہ تھا، کسی فرد کے دل میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی خواہش ہی پیدا نہ ہوئی، جٹ خاندان کا یہ سپوت بھی فیملی بزنس سے وابستہ ہوگیا۔

    جامعہ پنجاب کے ھیلے کالج آف کامرس میں زیر تعلیم رہا، اسلامی جمعیت طلباء سے وابستگی کی بڑی وجہ سید ابواعلیٰ مودودی کی تعلیمات سے متاثر ہونا اور انکی عصری مجالس میں شرکت کرنا تھا، ابتداء ہی میں اس نے، سوشلزم، نیشلائزین سے اختلاف کیا، اس کا نظریہ ہے کہ اللہ کریم جس کے مقدر میں کامیابی ڈال دیتے ہیں، اس کے وصف میں محنت، ایمانداری، مشقت کا جذبہ بھی پیدا کر دیتے ہیں، جو محنت سے گبھراتا ہے رب کریم اسے عطا بھی کم ہی کرتا ہے یہ فطری اصول ہے۔

    جس فرد میں محنت اور ایمانداری اکھٹی ہو جائیں وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہتا، ان کے والد نے ٹھیکہ پر آئل مل چلائی، محنت اور ایمانداری کو شعار بنایا اور 1953 میں اپنی انڈسٹری چلانا شروع کی، اس بزنس مین کا کہنا ہے کہ ملکی ترقی کا راز انڈسٹری کے فروغ ہی میں ہے، مگر دو بنیادی باتیں ایک کم لاگت پر انرجی کی فراہمی اور دوسرا کم سے کم انٹرست ریٹ ناگزیر ہے، دوسرا کاروبار کی نمو کا بڑا راز یہ ہے، کاروبار کرنے والوں کے قول اور فعل میں سرے سے کوئی تضاد نہ ہو۔

    یہ صنعت کار اب گروپ آف کمپنیز کا مالک اور بہت سے ارباب اختیار سے مل چکا ہے، جنہوں نے اسے مشاورت کے لئے مدعو کیا۔ اس کا نام محمد وحید چوہدری ہے، اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں انھوں نے عبدالستار اعوان کی کتاب "اوراق زندگی" میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    اگرچہ ایوب خاں کے عہد کو یہ صنعت کار انڈسٹری کا سنہری دور قرار دیتے ہیں، تاہم اسکی خامی یہ تھی کہ پرمٹ سسٹم تھا، اس کے تحت انھوں نے اپنے عزیز و اقارب کو نوازا تھا، یہ وہ وقت تھا جب لیبر کم پڑ گئی، ایوب خاں نے لیبر کے پاسپورٹ بنوانے پر پابندی عائد کردی تھی، چین کے نائب وزیر اعظم نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کا دورہ کیا، اپنے ہاتھ سے بک میں لکھا، اس کے مالک سے کہوں گا کہ وہ چین کے لوگوں کو فنی تربیت دے، اُس وقت ساوتھ ایشیاء کی سب بڑی بلڈنگ اور شپنگ کمپنی پاکستان میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسٹر بھٹو نے صنعت کو قومی تحویل میں لیا تو بٹالہ کمپنی کا مالک مایوس ہو کر بیرون ملک چلا گیا۔

    چین نے 70کی دہائی میں صنعت کی ترقی آغاز کیا ثمرات 90 کی دہائی سے ملنا شروع ہوئے۔ جبکہ اس وقت مسٹر بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگا کر صنعتی ترقی کو ریورس گیر لگوا دیا، جنرل ضیاء الحق نے صنعت کو ڈی نیشل لائز کیا نئی صنعتوں کے قیام کے لئے بھاری بھر قرض دیئے، بدقسمتی سے ایسے لوگوں نے قرض لیا جن کا انڈسٹری سے کوئی تعلق نہیں تھا حد تو یہ کہ قرض لینے والوں وہ فرد بھی شامل تھا جسکا کڑاہی گوشت کا ہوٹل تھا، اس نے سپننگ مل لگانے کا قرض لیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 80 فیصد انڈسٹری بنک کرپٹ ہوگئی۔ جنرل ضیاء نے تعمیری جذبہ کے تحت کام کیا، قرضوں کی چھان بین بیوروکریسی اور بنکوں نے کرنا تھی مگر اس میں بھی روایتی طریقہ اپنایا گیا۔

    محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے والد بھٹو کی صنعت کے لئے نیشنل لائزیشن پالیسی کی غلطی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ سرمایہ کاری لانے میں اس لئے کامیاب نہ ہوئیں کہ ایک امریکی سفیر نے پریس کانفرنس میں کہا جہاں افسر شاہی پیسے مانگے وہاں سرمایہ کاری کیسے آئے گی۔ اپنے مشاہدہ کی بناء پر کہتے ہیں کہ ایک بار فائزر کمپنی کے لوگ ملک کے اعلی عہدیدار سے ملے انڈسٹری لگانے کی خواہش کا اظہار کیا، اس کے بعد اس "ہستی"نے کمپنی کے نمائندے کو بلاکر کہا آپ سرمایہ کاری کریں مگر یہ بتائیں ہمارا حصہ کتنا ہوگا؟ اس کے بعد اس کمپنی نے انڈیا میں سرمایہ کاری کی، 2017 میں اس کمپنی کی ایکسپورٹ سات بلین ڈالر تھی۔

    صنعت کار نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے معروف بزنس مین 2004 میں کمپیوٹر کا پلانٹ یہاں لگانا چاہتے تھے، انکی ایک اعلی حکومتی رکن سے ملاقات ہوئی اور کہا کہ وہ تین سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، اس پر وزیر نے کہا کہ پانچ فیصد کمیشن ہمارا ہوگا، موصوف یہ سن کر وآپس بیرون ملک چلے گئے۔

    ہمارے ہاں 1982 میں سوزوکی کار کی فیکٹری لگائی گئی، جب کنٹرکٹ سائین ہوتا ہے تو وہ پانچ سال کے لئے ہوتا ہے، جس میں طے ہوتا ہے کہ اس عرصہ کے دوران یہ انڈسٹری 100 فیصد یہاں لگائی جائے گی، یہ ابھی تک 70 فیصد تک پہنچی ہے، 80 کی دہائی میں ہنڈا اور کرولا کی انڈسٹری لگی وہ 30 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں، جبکہ انڈیا میں سوزوکی نے تین سال کے اندر 100 فیصد پروڈکشن شروع کر دی تھی۔ دونوں ممالک کی گاڑیوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

    صنعت کار کے بقول شوگر انڈسٹری ایک ایسی صنعت ہے جس سے مزید 20 صنعتیں چلتی ہیں، گنے کی پھوگ سے کاغذ گتہ بنتا ہے، انرجی پاور پلانٹ چلتے ہیں، پلائی اور چپ بورڈ بنتا ہے، ڈسپوزل برتن بنتے ہیں، ایتھنول ودیگر چھوٹی انڈسٹری چلتی ہے۔

    بدقسمتی سے بھٹو دور میں انڈسٹری اور صنعت کار کو گالی دینا فیشن بن گیا تھا، ہمیں شوگر، آئل، سیمنٹ میڈیسن مافیا کے نام سے آج بھی پکارا جاتا ہے، صنعت کار کو شکوہ ہے ٹی وی چینلز پر صنعت کے مسائل اور مشکلات کوزیر بحث نہیں لایا جاتا، میڈیا کو چاہئے کہ وہ انڈسٹری کے حق میں بولے، پچاس پچاس محکمے ایک انڈسٹری کے اوپر بیٹھے ہیں ان کو ختم ہونا چاہیے، جن ممالک نے ترقی کی ہے انھوں نے صرف صنعت کی بدولت معاشی ترقی کی۔

    موصوف نے میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، چوہدری پرویز الہی، قاضی حسین احمد، منور حسن، سراج الحق ان سب سے صنعتی مسائل کے حوالہ سے ملاقاتیں کی ہیں، صنعت کار نے اس روسی آفیسر کی مثال دی ہے جس کے فرائض میں تقرریاں اور تبادلے تھے، امریکی انتظامیہ نے ڈیوٹی لگائی کہ روس میں اہم پوسٹوں پر نااہل اور نکمے افراد کا تعین کرنا قابل افراد کو کھڈے لائین لگانا، امریکی انتظامیہ نے ریٹائرڈ منٹ کے بعد اس آفیسر کو امریکہ میں ہر طرح مراعات دے کر صلہ دیا، اس کا انکشاف فنانشل ٹائمز کے ایک صحافی نے کیا۔ ، موصوف کے خیال میں پاکستان کی بہتری کے لئے اہل، ایمان دار افراد کو سیٹوں پر بٹھانا اور کرپشن کے لئے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانا لازم ہے۔