شعبہ تعلیم سے وابستہ حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے سابق آفیسر کے ساتھ دفتر ایف بی آر ملتان ریجن جانا ہوا، انھیں این او سی درکار تھا جو پنشن کاغذات کے لئے لازم ہے، انھوں نے درخواست گذار کی، اہلکار نے جائزہ لے کر اگلے روز آنے کو کہا، جواز یہ کہ ٹیکس کی ادائیگی کا ریکارڈ چیک کرنا ہے، ہم نے زیر لب مسکرا کر کہا، جہاں تک ٹیکس ریٹرن کے ریکارڈ کا تعلق ہے، تو اس معاملہ میں سرکاری ملازم ہی وہ واحد تابعدار طبقہ ہے، ٹیکس کی ادائیگی میں جس کا ریکارڈ مثالی ہے۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر، جب ملازم کی طرف سے ہر سال ٹیکس ریٹرن باقاعدہ فائل کی جاتی ہے، ٹیکس اسکی تنخواہ سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، تو پھر ریکارڈ کے چیک کرنے کا تردد کیوں؟ اس ڈیجیٹل دور میں "پیپر لیس" کا کلچر دفتری دنیا میں متعارف کروایا جارہا ہے، ایسے میں این او سی کے لئے پیرانہ سالی میں دفتر کی یاترا کا کیا جواز ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ملازم کا ٹیکس جس شرح سے بھی کاٹا جائے، سال بھر کی مکمل تفصیل اس کو فراہم کردی جائے، خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ملازم ہو۔
بیرون ممالک جہاں شعبہ ٹیکس کا ایک منظم نظام موجود ہے، ٹیکس کی کٹوتی سے متعلق سالانہ کی بنیاد پر ٹیکس دہندہ کو تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے اگر اضافی ٹیکس کسی مد میں کاٹا جاتا ہے تو تحریری طور پر تفصیل بتائی جاتی ہے، اسکی وآپسی کے لئے فی زمانہ ایک میل کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے، ایف بی آر میں درخواست گزاری کا پہلے تو کوئی ملازم رسک ہی نہیں لیتا، اگر کوئی ہمت کر بھی لے، تو سرخ فیتہ حائل ہوتا ہے ٹیکس ادائیگی کی اضافی رقم کی وآپسی کے لئے عمر خضر درکار ہے، وکلاء کی فیس کا اضافہ بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
این او سی لینے جب دوسرے روز حاضر ہوئے، تیسری منزل تک سیڑھی کے راستہ جانا پڑا، کیونکہ سیلری یونٹ کا دفتر اس منزل پر ہے، نہیں معلوم کہ یہ انتظامی ضرورت یا ریٹائرڈ ملازمین کی صحت کا امتحان ہے، پھولی ہوئی سانس سے اہلکار سے پوچھا، لفٹ بند کیوں ہے، پتہ چلا کوئی افسر موجود نہیں دفتری عملہ بھی کم ہے۔
شومئی قسمت ضلعی دفتر خزانہ ملتان میں بھی سرکاری ملازمین کو پیرانہ سالی میں دفتری امور کے لئے تیسری منزل تک جانے کے لئے ایسی ہی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، وہاں تو لفٹ سرے سے موجود ہی نہیں ہے، انتظامیہ کو خیال اس لئے نہیں آیا کہ افسران بالا کے تمام دفاتر گراونڈ فلور پر موجود ہیں، غالب امکان ہے کہ افسران اس حادثہ کے منتظر ہیں جو کسی بزرگ ملازم یا ملازمہ کے ساتھ پیش آسکتا ہے، کچھ معذور ملازمین بھی ہوتے ہیں، یہ سردردی افسران کے لئے نہیں ہے۔
این او سی کی وصولی کے بعد محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ افسر نے حساب کتاب لگانا شروع کیا کہ ملازمت کے دوران اس نے ریاست کو کتنا ٹیکس ادا کیا اور ریاست نے اس کے عوض اسے کیا دیا ہے، رف انداز میں میزانیہ تیار کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا، کہ 34 سال کی مدت ملازمت میں لاکھوں روپئے وہ ادا کرچکا، مگر اس کا صلہ کاغذ کی صورت میں اسے ملا جس پر رقم تھا کہ آپ کے ذمہ کچھ واجب الاادا نہیں، ساتھ یہ بھی تحریر اس کی بنیاد پر کوئی استثنیٰ حاصل نہ ہوگا، سرکاری آفیسر کا تعلق چونکہ محکمہ تعلیم سے تھا جو "کماؤ" شعبہ تصور نہیں کیا جاتا حلال کی کمائی میں سے لاکھوں روپئے کی ٹیکس کی ادائیگی کا سوچ کر ہی اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔
مخاطب ہوئے کہ ہم ایسی ریاست کے شہری اور سرکاری ملازمین ہیں جہاں لاکھوں روپئے کے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود اضافی سہولت میسر نہیں، بھاری بھر ٹیکس تنخواہ ملنے سے پہلے ہی منہا کر دی جاتی ہے، ضرویات زندگی کی ہر شہ پر ٹیکس کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے۔
ریٹائرڈ آفیسر گویا ہوئے کہ کسی مغربی ریاست کے وہ شہری ہوتے اور اس شرح سے ٹیکس ادا کرتے تو انھیں بہت سی سہولیات میسر آتیں، انکے بچوں کو تعلیم مفت ملتی، لیز پر گھر لینے کا قرض ملتا، ٹرانسپورٹ فری ہوتی مختلف کلب کی ممبر شپ ہوتی، ہیلتھ انشورنس کی سہولت ہوتی، مفت علاج ہوتا، بچوں کو بے روزگاری الاونس بھی ملتا۔
ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں پڑھانا پڑتا ہے، علاج معالجہ کے لئے پرائیویٹ شفاخانوں میں جانا پڑتا ہے، صفائی کے لئے جمع دار کو جیب سے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، مکان کی تعمیر کے لئے قرض کا حصول قریباً ناممکن ہے، سوشل سیکورٹی اور ہیلتھ انشورنس کا تصور بھی محال، جان اور مال کی حفاظت کے لئے نجی سیکورٹی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، بچوں کو پڑھانے کے بعد انکی ملازمت کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، بے روزگاری الاونس کی کوئی روایت سرے سے موجود ہی نہیں، سوک سروسز کے حصول کے لئے متعلقہ اداروں کے ملازمین کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے، بروقت انصاف کی فراہمی ایک خواب ہے، دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی بااثر آپ کی جائیداد پر قابض نہ ہوجائے، یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ آپ یا آپ کی اولاد کو کسی ناجائز مقدمہ میں دھر نہ لیا جائے۔
کہنے لگے، ٹیکس کی بروقت ادائیگی کے بعد بھی ٹیکس گزاروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا ہے، تو میری رائے میں وہ جاگیر دار، وڈیرہ، سردار، سرمایہ دار ہزار درجہ بہتر ہے، جوتمام ریاستی پروٹوکول"انجوائے" کرتا ہے اور ایک دھیلہ ٹیکس نہیں دیتا، وہ بچوں کے روزگار کے غم میں مبتلا نہیں ہوتا، پارلیمنٹ کا ممبر بن کر تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، یہ طبقہ از خود اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنے پر قادر ہے، نیز عوامی ٹیکس پر عیاشی بھی کرتا ہے، جب کہ سرکاری ملازمین کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کے باوجود انکی پنشن دیگر مراعات میں غیر قانونی طور پر بھاری بھر کمی کی جارہی ہے۔
فلاحی اور مغربی ریاستوں کی اپنے شہریوں سے"محبت" دوطرفہ ہے شہری ریاست کی محبت میں اگر بخوشی ٹیکس ادا کرتا ہے، تو ریاست بھی ٹیکس دہندگان کو تمام تر سہولیات فراہم کرتی رہتی ہے، سنگدل محبوبہ کی طرح ہماری ریاست کی شہریوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ ٹیکس وصولی کی "محبت" یک طرفہ ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ بھاری بھر ٹیکس لے کر انکی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتی ہے، صلہ میں نہ تحفظ، نہ ہی انصاف، نہ ہی روزگار، نہ ہی گھر کی چھت میسر ہے، کچھ بھی تو عطا نہیں کرتی، ریاست کے اس سامراجی رویہ پر مجید صابری کایہ شعر صادق آتا ہے۔
ہم ہیں یوں سامراج کے سامنے
جیسے کشکول تاج کے آگے