بوڑھی ماں اس بیٹے کے لئے جو چودہ سال کی قید کاٹ چکا تھا اس کی رہائی کے لئے جیل کے دروازہ پر بھیک مانگ رہی تھی اگر آج کا ڈیجیٹل دور ہوتا تو یقین کامل ہے کہ بھیک مانگتے ہوئے اماں کی وڈیو وائرل ہو جاتی، سوشل میڈیا بھر پور تبصروں اور آراء سے مزین ہوتا، جیلر کو لینے کے دینے پڑتے، جیل خانہ جات کے وزیر مشیر سب متحرک ہوتے، سرکار کی جانب سے نئی نئی وضاحتیں میڈیا کی زینت بنتی، ریٹنگ کی دوڑ میں بہت سے یو ٹیوبرز، اینکرز قیدی کی ماں کا انٹرویو کررہے ہوتے۔ مگریہ واقعہ اُس زمانہ کا ہے جب آزاد میڈیا نام کی کوئی چیز سرے موجود ہی نہیں تھی، یہ وہ دور تھا جب پہلے آمر کا طوطی بولتا تھا، مشرقی اور مغربی پاکستان انتظامی طور پر دو حصوں میں منقسم تھا جسے ون یونٹ کا نام دیا گیا، بہت سے قیدیوں کو صوبہ سرحد سے اٹھا کر کراچی، سندھ کی جیلوں میں اس لئے لایا جاتا، ان کا جرم غریب ہونا تھا۔
جس بوڑھی ماں کا تذکرہ کیا اس کا بیٹا بھی ون یونٹ پالیسی کے تحت کراچی کی سنٹرل جیل میں تھا، صوبہ سرحد کی رہائشی تھی کسی جرم میں سزا ہوئی، چودہ سال قید کاٹ لی، اسکی رہائی تبھی ممکن تھی جب ورثاء پانچ صد جرمانہ ادا کرتے، ورثاء میں صرف بوڑھی والدہ تھی، محنت مزدوری کرکے پانچ سو روپئے جمع کئے اور کراچی کا رخت سفر باندھا، بدقسمتی سے جیب تراش نے اسکی جیب پر ہاتھ صاف کر لیا۔ ارب پتی کراچی میں اس کے لئے کوئی عافیت کدہ نہ تھا، جیل کے دروازہ پر روزانہ کی بنیاد پر اس نے بھیک مانگنا شروع کردی، اس واقعہ کے عینی شاہد معروف صحافی آغا شورش کاشمیری ہیں جو ان دنوں زنداں میں تھے۔
اپنی کتاب " موت سے واپسی" میں لکھتے ہیں کہ ہری پور کا ایک نوجوان میری شیو بناتا وہ کئی دوسری جیلو ں سے منتقل ہوتا ہوا کراچی پہنچ گیا، کسی دور افتادہ گائوں کا رہنے والا تھا، اپنی بہن کو چھیڑنے کی پاداش میں اس نے ایک نوجوان کو ڈھیر کردیا، اس کے سب عزیز اللہ کو پیارے ہوگئے اسکی ستر سالہ بوڑھی ماں تھی، جو وہاں کسی خاں کے ہاں کام کرتی تھی، وہ کہتا تھا کہ ماں کو دیکھے دس سال ہوگئے، اس کے پاس اتنا کرایہ نہیں کہ وہ کراچی آ سکے اور میں بے بس ہوں کہ ہری پور جا سکوں، اس روگ نے اسے پریشان کر رکھا تھا۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ ہمارے نظام تعزیر کی نرمی اور سختی نے ہزارو ں گھر اجاڑ دیئے ہیں، ہمارا قانون موم کی ناک ہے یا بقول شخصے تار عنکبوت ہے جو کمزور کو پھانس لیتا اور طاقتور اسے توڑ دیتا ہے۔ ان کا لکھناتھاکہ انگریز کسی تھانیدار سے خوش ہوتے تو اسے ٹبی تھانہ لاہور لگاتے، جیلر سے راضی ہوتے تو سنٹرل جیل لاہور کا داروغہ بنا دیتے کسی سیشن جج کے گرویدہ ہوتے تو لاہور کی سیشن عدالت میں اسے تعینات کرتے۔
وہ لکھتے ہیں کہ کراچی کی ایک بیگم کو اپنی نوکرانی کے قتل میں قید ہوگئی تو اسکے لئے بطور خاص حکم صادر ہوا، اسکو جیل کی بجائے باہر رکھا جائے، وہ سونے کے ایک معروف سمگلر کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جو قید میں تھا مگر بہت سے غرباء جیل کے دروازے پر آکر اس سے مالی امداد لیتے، آغا شورش نے قید کے دوران امراء کے بہت سے لاڈلوں کو دیکھا ہے کہ جن کی اتواریں گھر میں گزرتی تھیں حالانکہ وہ سنگین جرائم کے قیدی تھے۔
اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آفیسر دو طرح کے ہوتے ہیں، عام قیدی نرم آفیسر کے لئے رطلب اللسان رہتے، رحم دل ان کے باعث رحمت ہوتے، راشی آفیسر سے بھی وہ خوش ہوتے جو رشوت کھا کر مصیبت کھڑی نہیں کرتا، بعض راشی آفیسر ظالم بھی ہوتے ہیں جو زیادہ خطرناک بن جاتے ہیں۔ قیدی کا راشن کھانے کی روایت تو انگریز کے دور میں تھی لیکن آزادی کے بعد رشوت کی نئی راہیں کھلی ہیں، اسکی نئی شکلیں دیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوری دور میں بھی سیاسی قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کی کوئی درخشاں روایت نہیں رہی ہے، انسانیت سوز رویہ رکھنے کی کہانیاں سوشل میڈیا کی زینت بنی ہیں، جھوٹے اور ناجائز مقدمات کا اندراج بھی اس منفی سر گرمی کا حصہ رہا، شورش کاشمیری کو بطور صحافی زیر کرنے کے لئے زیر عتاب رکھا گیا، اس طرح کی داستانیں جمہوریت کے ہر عہد میں ملتی ہیں، قائد عوام کا جمہوری دور اس اعتبار سے زیادہ بدنام رہا جب سیاسی قیدیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، سابقہ نام نہاد جمہوری حکومت میں اپوزیشن کے جید اراکین اور صحافی بھی گردش ایام کی تصویر بنے رہے۔
بقول مصنف کسی مسئلہ کے حل کے لئے انگریز کا وطیرہ رہا کہ وہ وقتی اشک شوئی یا دفع الوقتی کے لئے کمیٹیاں یا کمیشن بنا دیتا، ان کے اراکین بڑے بڑے معاوضہ جات پر طویل مدت تک کام کرتے، قومی نوعیت کے مسائل، سانحات پر کمیشن اور کمیٹیاں بنانے میں ہمارا بھی کوئی ثانی نہیں۔ سیاست دان سیاسی قیدی بنے، بعض نے آپ بیتی رقم کرتے ہوئے قیدیوں کی بے بسی پر بھی لکھا، اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر صدا احتجاج بلند کی، اقتدار جب انھیں عطا ہوا، غریب اور بے بس قیدی ان کے لئے غیر اہم ہوگئے۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں ہم ڈوبتے ہوئے معاشرہ کے فرد ہیں، اس سماج کو وہی لوگ بچا سکتے ہیں، جنہیں آخرت کی فکر اور جن کا دامن ہر آلائش سے پاک ہو۔