ایسی سرزمین جسکی 98 فیصد سے زائد آبادی مسلم ہو مگر وہاں سرے راہ پانی کا کولر بڑے لوہے کے فریم اور گلاس زنجیر سے جکڑا ہو، مسجد میں جوتی آگے ہو تو نماز نہ ہونے کا وہم پیچھے تو تو اسکی چوری کا دھڑکا لگا رہے، جنازہ گاہ میں عین جنازہ کے وقت شرکاء کی جیبوں سے پرس اور موبائل فون نکالنا، وہ خرافات ہیں جو اس معاشرہ کا تاریک چہرہ ہے، ایسے ماحول میں یہ زعم ہونا کہ آپ کی موٹر بائیک، سائیکل، یا گاڑی بغیر کسی ٹوکن یا پارکنگ اسٹینڈ کے محفوظ رہ سکتی ہے، احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔
مذکورہ اشیاء کی حفاظت کے نام پر سرکار ی اور غیر سرکاری طور پر پارکنگ کی سہولت اور اسکی فیس کی ایک اصطلاح رائج العمل ہے تاہم اس کی ضرورت اور استعمال سے ایسے چور دروازوں نے جنم لیا کہ معاملات میں درستگی لانے کے لئے شہریوں کو عدلیہ کے دروازے تک دستک دینا پڑی ہے، اس فیس کی وصولی کی مشق سے ایک نئے مافیا نے جنم لیا ہے، ہر شہر میں انکو ایسے شرفاء کی سرپرستی حاصل ہے جنکی شرافت پر کوئی اعتبار ہی نہیں کرتا۔
چھوٹے سے چھوٹے قصبہ سے لے کر میٹروپولیٹن تک پارکنگ فیس کی وصولی کی "واردات" بغیر کسی قاعدے اور قانون کے ڈالی جارہی ہے، اس دیدہ دلیری میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں کہ سرکاری مشینری بھی بے بس دکھائی دیتی ہے، بڑے ہی منظم انداز میں یہ دھندہ اب "بھتہ خوری" کی شکل میں بڑے افسران کی ناک کے نیچے جاری ہے، اپنے دفترمیں براجمان افسران اس لاقانونیت سے اُس وقت تک لا علم رہتے ہیں جب تلک دو چار سنگین قسم کے لڑائی جھگڑے نہیں ہو جاتے، افسران حرکت میں اگر آجا بھی جائیں، تو یہ تبدیلی چند روزہی برقرار رہتی ہے، سرکار کی رٹ ختم ہونے کا خطرہ ہر دم موجود رہتا ہے۔
اس نوع کے مافیاز کا قلع قمع نہ ہونے کی وجہ ٹھیکیداری نظام ہے، جس سے مخصوص اور من پسند طبقہ کی فیض یاب ہو رہا ہے پارکنگ فیس کی وصولی کا اطلاق اگرچہ عوامی مقامات پر ہی ہوتا ہے لیکن تاحال پارکنگ فیس کی نیلامی کبھی مشتہر ہوتی نہیں دیکھی جس میں اسکی وصولی کا شفاف طریقہ کار تحریر ہو، ایسا کرنا، شائد لازم اس لئے نہیں کہ "اپنوں" کو نوازنے کا بہتر اور سہل طریقہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
دفاتر، ریلوے اسٹیشن، بس، ویگن اسٹینڈ، ہسپتال، شفاخانے، ڈاک خانہ جات، جیل خانہ جات، عدالتیں، تعلیمی ادارے، شہر کی منڈیاں، بڑی اور معروف مارکیٹس، پالازہ جات، بنکس، ائر پورٹ، تفریحی مقامات، پارک، کھیل کے میدان، سینماء حال وغیرہ عوامی مقامات ہیں، جہاں پارکنگ اسٹینڈ اور فیس کا اطلاق دو چند ہوجاتا ہے۔
ملتان کی بات اگر کی جائے تو ضلع کچہری کے قرب و جوار میں بلا دھڑک پارکنگ فیس کی وصولی میں ان کا کوئی ثانی نہیں، مختلف گروپوں میں منقسم افراد یہ خدمت انجام دے رہے ہیں مگر سب کے نرخ الگ الگ ہیں، اس لئے جہاں داؤ لگتا ہے، وہ گاہک سے مال بٹورتا ہے، جب سے بائیکرز کے لئے ہلمٹ کی پابندی نافذ العمل ہے، 50 روپئے فیس کے علاوہ الگ سے مبلغ 30 روپئے وصول کے جارہے ہیں۔
حد تو یہ اس مافیا نے اب فٹ پاتھ پر بھی قبضہ کرلیا جو خواتین یونیورسٹی کی دیوار سے ملحق ہے، یوں پیدل چلنے والوں کا راستہ بھی بند ہوگیا ہے، آدھی سڑک پر پہلے ہی وکلاء کی پارکنگ کا قبضہ ہے، اس مقام پر ٹریفک بلاک ہونا روز کا معمول ہے، یہ درینہ اور حل طلب مسئلہ بھی ہے، پارکنگ فیس کی بھاری بھر رقم یہاں کس کی جیب میں جاتی ہے، اب کوئی سیکرٹ نہیں رہا۔
پارکنگ کا منظم نظام دنیا میں موجود ہے، اگر برطانیہ کی بات کی جائے، تو فی زمانہ پارکنگ فیس کسی مخصوص ٹولہ کی جیب میں جانے کی بجائے متعلقہ کونسل اتھارٹی کے اکاونٹ میں جاتی ہے، یہ فیس بذریعہ ایپ، کارڈ، یا پے منٹ مشین سے ادا کی جاتی ہے، بعض مقامات پر صرف کارڈ سے ادائیگی ممکن ہوتی ہے کیش نہیں چلتا، جہاں رجسٹرڈ پارکنگ ہے وہاں ایپ سے پہلے جگہ بک کروالی جاتی ہے، جس میں دورانیہ لکھا جاتا ہے البتہ آئن لائین ٹائم میں توسیع لی جاسکتی ہے، چند گھنٹوں کے لئے فری پارکنگ کی شاپنگ کے لئے سہولت میسر ہوتی ہے، غیر رجسٹرڈ پارکنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔
روایت ہے کہ حاصل شدہ رقم سے مقامی روڈز کی تعمیر کی جاتی ہے، ماحول کی آلودگی کے خاتمے پر رقم خرچ ہوتی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جاتا ہے، کچھ سوشل اداروں میں سٹاف کی کمی کو بھی پورا کیاجاتا ہے، گویا یہ پیسہ عوام ہی کی بہتری پر صرف ہوتا ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق 244 پارکنگ فیس کی وصولی کے رجسٹرڈ مقامات لاہور میں ہیں، کراچی میں 25 ٹاؤن اور 6 کنٹونمنٹ بورڈ ہیں، اسلام آباد میں 17 معروف مارکیٹس کے 66 مقامات ہیں، ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 70 فیصد عوام پارکنگ فیس دینے کو تیار ہیں، تاہم غیر منظم طریقہ سے اسکی وصولی میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، ہر ٹھیکیدار نے اپنی اپنی رسیدیں چھپوائی ہوئی ہیں، جس پر کسی مجاز ادارہ سے منظوری کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پارکنگ اسٹینڈز میں معذور افراد کے لئے کوئی سہولت دستیاب نہیں، وہ بھی فیس ادا کرتے ہیں۔
ایک ہی مگر کم شرح سے پارکنگ فیس کی وصولی میں کوئی حرج نہیں، جن مقامات سے یہ وصول کی جائے اسی ادارہ میں صارفین کو بہتر سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، پہلی شرط ٹھیکیداری نظام میں اصلاح لازم ہے، ہر مقام کے لئے ٹھیکہ کی نیلامی بذریعہ اشتہار ہو دوسرا ڈیجیٹل طریقہ کار سے اسکی وصولی کی جائے، دنیا بھر میں اس نوعیت کی ذمہ داری مقامی حکومتوں پر ڈالی جاتی ہے، یہاں تو اسلام آباد مقامی سرکار سے محروم چلا آرہا ہے۔ اسی طرح پارکنگ اسٹینڈ زمیں جدت لائی جائے، جس میں سیفٹی اور سیکورٹی کو کلیدی اہمیت دی جائے، یہاں کے پارکنگ اسٹینڈ اس قدر غیر محفوظ ہیں کہ کوئی بھی شرپسند اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
صوبائی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کی جیب سے پارکنگ فیس کے نام پر بھاری بھر رقم کی وصولی کو قومی دھارے میں لائے، گلی، محلہ میں گاڑیوں کی پارکنگ کی روک تھام کے لئے جدید طرز کے پارکنگ اسٹینڈ ہر جگہ تعمیر کروائے جائیں جہاں صارف کو ہر طرح کا تحفظ ہو، گداگری کے پیشہ سے جمع ہونے والی رقم سے قومی خزانہ جس طرح محروم چلا رہا ہے، اسی طرح پارکنگ فیس کے پیسہ سے بھی خزانہ کو کوئی نفع نہیں پہنچ رہا، عوامی پیسہ کا منظم انداز میں خزانہ میں جمع ہونا اور شہریوں کیلئے اس کا بہترین استعمال اچھی گورننس کے لئے ناگریز ہے۔