Thursday, 10 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Kuch To Hai Tabdeeli Ka Baais

    Kuch To Hai Tabdeeli Ka Baais

    ملکی تاریخ میں دو مہینے اگست اور مئی کافی اہمیت کے حامل ہیں اگست میں ہمارا پیارا وطن معرضِ وجود میں آیا جبکہ مئی میں پاکستان نے ثابت کر دیا کہ معاشی طور پر ناتواں ہونے کے باوجود دفاعی حوالے سے پُراعتماد اور ناقابلِ تسخیر ہے۔ 28 مئی 1998کو پاکستان جوہری طاقت بنا اور اب معرکہ حق سے عالمی ساکھ اور اہمیت بہتر بنالی ہے۔ اِس کی وجہ عسکری اور منتخب قیادت میں اعتماد اور تعاون ہے۔ دونوں کا مطمع نظر ملک کی مضبوطی اور خوشحالی ہے اِس لیے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔

    بھارتی طاقت کے غرور کو خاک میں ملانا معمولی نہیں غیرمعمولی کامیابی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عسکری کامیابیوں کے بعد سفارتی سطح پر بھی منتخب اور عسکری قیادت ہمقدم ہے۔ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں۔ عسکری قیادت نے دشمن کی چالوں کا جس فہم و فراست، حکمت اور تدبر سے جواب دیا، کے اعتراف میں آرمی چیف کی فیلڈ مارشل کے منصب پر تعیناتی اور فضائیہ کے سربراہ کو مدتِ ملازمت کی تکمیل کے باوجود خدمات جاری رکھنے کی حکومتی پیشکش بر وقت اور مستحسن ہے۔

    یہ فیصلے خوفزدہ دشمن کو مزید بددل کریں گے ہر وقت بھڑک بازی کی سیاست کرنے والا مودی اب گولی سے نشانہ بنانے اور پانی روکنے جیسی دھمکیوں سے پاکستانیوں کے حوصلے پست کرنا چاہتا ہے، مگر ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف چوہدری کے جوابی بیان تم پانی بندکروگے ہم تمہاری سانسیں بند کر دیں گے اور مزید حماقت کی تو پہلے سے زیادہ سخت جواب ملے گا سے ہم وطنوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا ہے۔ مئی میں پاک فوج کے جوابی وار سے بھارت کو جو عسکری ہزیمت ہوئی اُس کا اثر سفارتی سطح پر بھی کسی حدتک نظر آنے لگا ہے۔

    وزیرِ اعظم شہباز شریف کا ترکیہ، ایران اور آزربائیجان دورہ اِس بناپر اہمیت کا حامل ہے کہ اِس سے پاکستان کی سفارتی تنہائی کا تاثر زائل جبکہ دنیا کی ضرورت ہونے کا بھارتی دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔ دراصل موجودہ حکومت نے معاشی بحالی کی تگ و دو کے ساتھ اقوامِ عالم سے تعلقات بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جس کی بدولت تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران اسرائیل کے سوا کوئی اور ملک بھارت کی حمایت میں آگے نہ آیا، جبکہ پاکستانی موقف کی چین، سعودی عرب، ترکیہ، آزربائیجان سمیت کئی ممالک نے کُھل کر تائید کی۔

    مزید حیران کُن پہلو یہ کہ روس نے بھی قدرے غیرجانبدارانہ رویہ رکھا اور مودی جسے اپنا دوست کہہ کر انتخابی مُہم میں حصہ لینے امریکہ چلے جاتے ہیں اُسی ٹرمپ نے بھی بھارت کے غلط موقف کی تائید نہ کی، یہ پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ امریکہ کا دونوں ممالک سے یکساں رویہ اختیار کرنا معمولی بات نہیں جس سے دنیا کی ضرورت ہونے کا دعویدار بھارت حیران و پریشان ہے۔ پاکستان کو نیچا دکھانے کا خواہاں مودی اپنی حماقتوں سے کشمیر کو دوبارہ عالمی مسلہ بنا بیٹھا ہے۔ ٹرمپ نہ صرف بھارتیوں کو امریکہ سے بے دخل کر رہا ہے بلکہ صنعتکاروں کو بھارت سے کارخانے امریکہ منتقل کرنے کے احکامات جاری کررہا ہے، جس پر مودی پریشان کو مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کی پیشکش نے تو ہلا کررکھ دیا ہے۔ دراصل ایک مضبوط بھارت امریکہ کے مفاد میں ضرور ہے مگر جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک پاک بھارت کشیدگی ختم نہیں ہو سکتی جس سے امریکہ کو خدشہ ہے کہ بھارت پاکستان سے ہی مصروف رہے گا اور چین پر توجہ نہیں دے سکے گا اِس لیے امریکہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر پاک بھارت مسائل جلد حل کرنا چاہتا ہے تاکہ بھارت چین پر نظر رکھنے اور مقابلہ کرنے پر توجہ دے سکے۔

    ایسے حالات میں جب ایرانی قیادت امریکیوں کو اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرانے پر آمادہ و تیار ہے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا تہران جا کر ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کی حمایت کرنا معنی خیز ہے جس نے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ کچھ توہے اِس تبدیلی کا باعث، ماہرین اُن وجوہات کی تلاش میں ہیں کیونکہ اب جبکہ امیتازی رویہ رکھنے کی بجائے امریکہ جب پاکستان اور بھارت سے یکساں سلوک کرنے لگاہے تو پاکستان کو اچانک اِس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا پاکستان یہ سب کچھ چینی ایماپر کررہا ہے یا کچھ اور وجوہات ہیں؟

    اِس حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں ایک خیال یہ ہے کہ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں کے دوران اسرائیل نے بھارت کی ہرممکن مدد کی جس سے پاکستان غصے میں ہے کیونکہ ایرانی جوہری پروگرام کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے اسرائیل اِس کا ہر صورت خاتمہ چاہتا ہے اور اسرائیل کو زچ کرنے کے لیے ہی پاکستان نے نیا موقف اپنایا ہے۔ ایسا قیاس کرنے والے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے جس پاکستان نے ایران سے گیس درآمد کے طے شدہ معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر کردی نیز تیل کی خرید و فروخت ڈالر میں ہونے کا حل یہ تلاش کیا کہ ایران سے سرحدوں پر نرمی کردی۔

    اِس حد تک مرعوب ملک کا اچانک بے خوف ہوجانا بہت کچھ واضح کرتا ہے حالیہ پاکستانی موقف ایران کے لیے بہت حوصلہ افزاہے اِس سے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایرانی موقف کوتقویت ملے گی پاکستانی احسان کا صلہ ایران نے یہ دیا ہے کہ شورش کا باعث بننے والے بلوچوں پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی جاری مُہم کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایران سرحدوں پر غیر قانونی نقل و حمل روک دی ہے جس سے بھارت کی شہ پر سرگرم عناصر کا خاتمہ کرنے میں آسانی ہوگی ایران بھارت قریبی تعلقات کے باوجود حالیہ تبدیلی غیر معمولی ہے جو پاکستان اوریران میں اعتمادسازی کو فروغ دے گی۔

    ترکیہ، آزربائیجان اور پاکستان کا سہ ملکی سربراہی اجلاس کو محض میزبان ملک کی یومِ آزادی تک محدود تصور کرنا درست نہیں بلکہ یہ خطے میں ہلکورے لیتی تبدیلیوں کا عکاس ہے۔ اِس سے معاشی وتجارتی تعاون کو فروغ اور دفاعی تجربات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ دنیا کی گزشتہ سوسالہ تاریخ میں آزربائیجان اور پاکستان دو ایسے مسلم ممالک ہیں جنھوں نے میدانِ جنگ میں فتح حاصل کی ہے، جبکہ ترکیہ کی مستحکم معیشت کی اپنی اہمیت ہے چین اور پاکستان کا شانہ بشانہ چلنا کئی عشروں سے عیاں ہے مگر امریکی حوالے سے نئی پاکستانی کروٹ پر اقوامِ عالم کو حیرانگی ہے۔

    پاکستان کو دہشت گردی کی جس پریشان کُن صورتحال کا سامنا ہے اُسے میں امریکہ نے تعاون کا جواب کبھی تعاون سے نہیں دیا لیکن بھارت پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے دیگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے ثمرات نظر آنے لگے ہیں۔ افغان قیادت کا مختلف گروہوں میں شامل ہو کر بیرونِ ملک جہاد کرنے والوں کو مجاہد نہ کہنا پاکستان کو دہشت گردی کے لگے زخموں پر نرم پھاہے سے کم نہیں۔

    یہ ٹی ٹی پی اور دیگر بُرے عناصر کی سرپرستی سے دستکش ہونے کا اِشارہ ہے۔ پاکستان کے خلاف سرگرم درجنوں دہشت گردوں کی خوست، پکتیکا اور پکتیا جیسے صوبوں سے گرفتاریاں پاک افغان بہتر تعلقات کی راہ ہموار ہوگی۔ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی طرف سے اُن کی اجازت کے بغیر کسی قسم کے جہاد کو فساد اور غیر قانونی قرار دینا ایک بڑی پیش رفت ہے۔ المختصر پاک چین شراکت داری کے قلیل مدت میں اِتنے واضح نتائج ایک خوشحال اور پُرامن خطے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔