عین ایسے حالات میں جب 1979کے ایرانی اسلامی انقلاب کے ناقدین بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور سزاؤں کا سامنا کرنے کے باوجود تقویت حاصل کررہے تھے اسرائیلی حملوں نے صورتحال کو یکسر بدل کر انقلاب مخالف قوتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اب ناقدین خاموش اور قدامت پسندوں کو فیصلہ کُن بالادستی حاصل ہوگئی ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے نبض شناس حلقوں میں یہ سوال گردش کرنے لگا ہے کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہونے اقتدار میں رہنے کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف جو چال چلی تھی کیا ناکامی سے دوچار ہوگئی اور اسرائیلی فوجی برتری کیاسوالیہ نشان بن گئی ہے؟
انقلاب کے بعد ایران میں کئی بار اندرونی خلفشار نے جنم لیا اور اُس نے کئی ایک لڑائیاں لڑیں جن میں طویل ترین عراق سے آٹھ سالہ جنگ ہے جبکہ شام سے لیکر لبنان، یمن اور فلسطین میں اپنی حامی قوتوں کے زریعے اسرائیل کو عشروں تک زچ کیے رکھا لیکن حالات خواہ جیسے بھی رہے ملک کے جمہوری عمل میں تعطل نہ آنے دیا جو اُسے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ایسے ممالک سے ممتاز کرتا ہے جہاں بادشاہت رائج ہے اور حکمران طبقہ ہر وقت عوامی بیداری سے خوفزدہ رہتا ہے جس کا فائدہ عالمی طاقتوں کو ہوتا ہے اور وہ حکمرانوں کی حمایت کے عوض مفادِ عامہ کے منافی شرائط منوا لیتی ہیں لیکن ایران نے جنگ اور امن کے دوران بھی جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھا۔
صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے بروقت انعقاد نے ایرانی عوام کی غالب اکثریت کا اسلامی انقلاب پر اعتماد برقرار رکھا جس کا اسرائیل ادراک نہ کر سکا رجیم تبدیلی کا منصوبہ ناکامی سے دوچار تو ہوا ہی ہے جوہری پروگرام ختم کرنے کا دعویٰ بھی مشکوک نظر آتا ہے۔ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ رجیم تبدیلی کے اندازوں کا مستقبل قریب میں بھی پورا ہونا مشکل ہوگیا ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور ایران تینوں فاتح ہونے کے دعویدار ہیں۔ اسرائیلی حکومت کہتی ہے کہ اُس نے ایرانی جوہری پروگرام ختم کرنے کے ساتھ تمام اہداف حاصل کرلیے ہیں اور اب ایران کی طرف سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں رہا جبکہ امریکی انتظامیہ بھی ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اُس نے حملہ آوروں کا حوصلے، ثابت قدمی اور جرات سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ تینوں کا موقف درست ہونا ممکن نہیں کیونکہ بیک وقت تمام فریقوں کو فاتح نہیں کہہ سکتے۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا اگست 1945کے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں سے موازنہ کرنا بھی ناقابلِ فہم ہے۔ اول تو یہ کہ جاپان کے ساتھ کئی اور ممالک بھی جنگ میں شامل تھے اِس کے باوجود اُس نے دو جوہری بم گرانے پر ہی ہتھیار ڈال دیے جبکہ اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں کوئی اور ملک ایران کے ساتھ عملی طور پر شریک نہیں ہوا یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ بھی اِس معاملے میں الگ تھلگ رہی اور مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی یا خطے کے کسی ملک سے اُسے کوئی عملی مدد نہ ملی بلکہ واحد ایران ہی اسرائیل اور امریکہ سے مقابلہ کرتا نظر آیا۔
جون کی اِس بارہ روزہ جنگ نے کئی ایک پہلوؤں کی وضاحت کردی ہے اول تو یہ کہ اسرائیل تسلیم کرلے ایران پر حملوں کے دوران وہ شام، لیبیا، مصر، لبنان اور عراق کی تاریخ نہیں دہرا سکا جس کی وجہ ایران میں شخصی نظام رائج نہیں جبکہ ایران کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ اندرونی حوالے سے لاکھ بہتر سہی لیکن بیرونی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے مقابلے پر بھارت پر انحصار ترک کرنے کے ساتھ فوری طور پر فضائیہ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اِس حوالے سے وہ چین اور پاکستان کی مدد حاصل کر سکتا ہے جن کی فضائیہ خطے میں سب سے مضبوط اور جدید تصور کی جاتی ہے جبکہ بھارتی فضائیہ مہارت اور صلاحیت میں کم ترہے۔
اسرائیل نے جنگ کے آغاز میں بڑی مہارت سے پہلے ہی حملے میں ایرانی فضائی دفاعی نظام تہس نہس کردیا مگر ایران نے جوابی حملوں میں زیادہ تاخیر نہیں کی اور ہرممکن طریقہ سے اسرائیل کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جس میں جزوی حدتک کامیابی ہوئی لیکن معمولی کامیابیوں کو تین جوہری تنصیبات کی تباہی کا نعم البدل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ابتدامیں ایسا لگا کہ جنگ طوالت اختیار کر سکتی ہے شاید اسی لیے امریکہ کو اپنے ہتھیاروں کے ذخائر میں سے سب سے بھاری، خطرناک اور تباہ کُن بم ایرانی جوہری تنصیبات پر گرانے پڑے لیکن ایران نے نفسیاتی کمزوری نہ دکھائی اور کسی حد تک مقابلہ کرنے کا تاثر دینے میں کامیاب رہا اسی وجہ سے جنگ بندی کے لیے امریکہ نے قطرسے ثالثی کی مدد لی جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسئلہ طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ سفارتی زرائع کو بروئے کار لاکر زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں ہر جگہ رجیم تبدیلی کا اندازہ پورا نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا ہدف طے کرتے وقت خطے کی عوام کا مزاج اور حالات پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اپنے قیام کے بعد 1948 سے اسرائیل عربوں سے کئی بڑی اور چھوٹی جنگیں لڑ چکا ہے اِس تناظر میں عربوں کا مزاج آشنا تو کہہ سکتے ہیں مگر ایران کے خلاف گزشتہ ماہ اُس نے پہلی جنگ لڑی ہے جو بغیر کسی نتیجہ ختم ہوئی ہے یہی اِس جنگ کا سبق ہے۔
اگرچہ 1979کے اسلامی انقلاب سے قبل ایران و اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود تجارتی، سیاحتی اور کسی حد تک ثقافتی روابط موجود تھے جس کا موجب شاہ ایران کی مغرب نواز پالیسیاں تھیں۔ 1955 میں امریکہ نے ایران کو معاہدہ بغداد میں شامل کرتے ہوئے بھی اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنا دیا لیکن اسلامی انقلاب نے ایران میں بہت کچھ بدل دیا ہے۔ نہ صرف ایران عرب ممالک سے دور ہوا بلکہ جوہری پروگرام شروع کرنے کی وجہ سے اسرائیل سے بھی کشیدگی پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ جون 2025 کی جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔
امریکہ خوش ہے کہ اُس نے ایران و اسرائیل جنگ بندی کا اعزاز حاصل کر لیا ہے مگر حالات و واقعات سے دیرپا جنگ بندی کا اِشارہ نہیں ملتا۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل نے عسکری قیادت اور جوہری سائنسدانوں، میزائل و دفاعی نظام کو تباہ کردیا ہے لیکن یہ ایران کے لیے ناقابلِ تلافی نہیں۔ ایسا امکان اب بھی موجود ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ فعال کر سکتا ہے البتہ یہ طے ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
پہلے ہی دوعشروں سے عائد اقتصادی پابندیوں سے کمزور ایرانی معیشت کو حالیہ جنگ نے مزید دگرگوں کر دیا ہے لہذا جنگ بندی کے بعد جو امن کا موقع ملا ہے اُسے ضائع ہونے سے بچانا ہے تو کشیدگی بڑھانے سے ایران و اسرائیل کو گریز کرنا ہوگا۔ نیز ایرانی قیادت کو بدحال عوام کو عوام کو کچھ ثمرات دینا ہوں گے وگرنہ جنگ بندی سے خوش ایرانی عوام میں بے چینی جنم لے گی جسے زیادہ دیر انقلابی نعروں سے دبانا مشکل ہوجائے گا اسی طرح اسرائیل کے لیے بھی مستقبل میں مشکلات کا جنم لینا ناممکن نہیں رہے گا۔