Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Haider Javed Syed/
  3. Saneha Bajaur, Nayi Maslaki Jang Ka Darwaza Khul Raha Hai?

Saneha Bajaur, Nayi Maslaki Jang Ka Darwaza Khul Raha Hai?

سانحہ باجوڑ کے بعد سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے سوشل میڈیا مجاہدین خوشی سے پھولے نہیں سمارہے۔ فیس بک اور ٹیوٹر پر سینکڑوں اکائونٹس سے جو کچھ لکھا کہا گیا بلکہ یہ سلسلہ جاری ہے اس پر افسوس فضول ہے اس جماعت کے سربراہ کی ساری سیاست خودستائی اور نفرتوں سے ہی عبارت ہے۔

تحریک انصاف کے جو حامی خود کچھ نہیں کہہ سکے انہوں نے جعلی سکرین شارٹوں کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا کہ سانحہ باجوڑ مولانا فضل الرحمن اینڈ کمپنی نے خود کیاہے۔

اس ذہنیت کے ڈانڈے بھی عمران خان سے جاملتے ہیں۔ اکتوبر 2007ء میں سانحہ کارساز کے بعد عمران خان بھی یہی کہتے دیکھائی دیئے تھے کہ سانحہ کارساز کی منصوبہ بندی محترمہ بینظیر بھٹو نے خود کی تھی جب لیڈر کی زندگی جھوٹ بولنے اور عامیانہ گفتگو کرتے گزری ہو تو اس کے کارکن اور ہمدرد تلاوت سنانے سے رہے۔

عمران خان کی طالبان کے لئے ہمدردیاں اور طالبان کی ان کے لئے جوابی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات کے دنوں میں ان سطور میں عرض کیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کو اعتماد سازی پروگرام کے نام پر واپس لابسانے کے پروگرام کا مقصد اسے مستقبل کی سیاست میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا تھا۔

منصوبہ عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کا مشترکہ تھا، کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا پھر پی ڈی ایم والوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔

پہلے دن سے عرض کررہا ہوں کہ پی ڈی ایم والوں نے عدم اعتماد کی تحریک لاکر غلط کیا۔ کچھ صبر کرتے تو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں منطقی انجام سے دوچار ہوتے پتہ نہیں کیا جلدی تھی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا اور عمران خان کی سیاست کے تن مردہ میں"جان" ڈال دی۔

ان تمہیدی سطور سے آگے بڑھتے ہیں۔ سانحہ باجوڑ کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے جس شقاوت قلبی کا مظاہرہ کیا اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر ہے جس نے 20سال اور اربوں روپے لگاکر یہ مخلوق تیار کی۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ آج کاندھے اچکا کر صرف یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسری طرف سانحہ باجوڑ کے حوالے سے ایک تجزیاتی خبر جو "خراسان ڈائری"کے نام سے سوشل میڈیا کی زینت بنی کے مطابق سانحہ باجوڑ میں شدت پسند سلفی عسکریت پسند شامل ہیں۔ خراسان ڈائری لکھنے والے افتخار فردوس کے مطابق یہ خود کش حملہ سلفی نظریات کی حامل داعش خراسان چیپٹر کا دیوبندی عقائد کے حامل طالبان اور ان کے پاکستانی ہمدردوں کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

افتخار فردوس کے موقف اور معلومات کے تجزیئے کی ضرورت ہے۔

دولت اسلامیہ عراق والشام (داعش) کے ظہور کے بعد عراق اور شام میں اس تنظیم کے سخت گیر سلفی ارکان نے جو خونریزی کی اور جس طرح دیگر مسلم مکاتب فکرکے علاوہ ان ملکوں میں مقیم دیگر مذاہب کے لوگوں کا قتل عام کیا عورتوں بچیوں کو غلام بنایا مال و اسباب لوٹا یہ ابھی کل ہی کی بات ہے۔

حالیہ عرصہ میں سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے سابق عراقی شہری کے ملوث ہونے پر تفصیل کے ساتھ عرض کیا تھا کہ اس عراقی کا تعلق عراق و شام میں آباد یزیدی مذہب کے پیروکاروں سے ہے۔

داعش کے مظالم اجتماعی عصمت دریوں اور دیگر جرائم کا سب سے زیادہ نشانہ یزیدی مذہب رکھنے والے قبائل ہی بنے تھے۔

داعش خراسان کے لوگ بھی سخت گیر سلفی عقائد رکھتے ہیں۔ داعش کے خراسان چیپٹر میں زیادہ تر عرب، ازبک، تاجک، بھارتی افغانستان کے سخت گیر سلفیوں کے علاوہ القاعدہ کا ایک گروپ اور ایک کالعدم پاکستانی جہادی تنظیم لشکر طیبہ سے عشرہ بھر قبل الگ ہونے والا ایک گروپ ہے جس کی ابتداً قیادت یوسف سلفی نامی شخص کررہا تھا۔ یوسف سلفی لگ بھگ سات آٹھ برس قبل شاہدرہ لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا اس عرصے میں داعش کے نیٹ ورک کو کچلنے میں پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کا بہت اہم کردار تھا بعدازاں وہ ایک خودکش حملے میں شہید ہوگئے ان پر خودکش حملہ لشکر جھنگوی العالمی نے کیا تھا۔

یہ تنظیم پہلے ٹی ٹی پی کی اتحادی تھی پھر اس نے داعش کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ دو ہزار پندرہ میں اس تنظیم کے چند اہم لوگ شام میں گرفتار بھی ہوئے۔ لشکر جھنگوی العالمی اور داعش کے درمیان معاملات بلوچستان کے ایک فرقہ پرست رہنما رمضان مینگل نے کرائے تھے تب ان سطور میں تفصیل کے ساتھ مذاکرات، سمجھوتے اور دیگر معاملات سے قارئین کو آگاہ کیا تھا۔

داعش خراسان چیپٹر کےقیام سے اب تک پچھلے 6 سات برسوں میں اس تنظیم نے افغانستان اور پاکستان میں بھی جو کارروائیاں کیں ان میں ازبک و تاجک اور بھارتی شہری استعمال ہوئے۔ چند برس قبل کابل میں سکھوں کی عبادت گاہ پر حملے میں بھارتی شہری کے کردار کا بھانڈہ پھوٹا تھا یہ وہی عرصہ ہے جب امریکی کانگریس کی ایک ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ داعش خراسان چیپٹر کو مالی اور افرادی قوت سب سے زیادہ بھارت سے فراہم کی جارہی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلمان طلباء تنظیم اسلامک سٹوڈنٹس موومنٹ انڈیا نے داعش خراسان چیپٹر کو افرادی قوت فراہم کی۔ خراسان چیپٹر نے خودکش حملوں کے لئے زیادہ تر ازبک و تاجک ارکان کو استعمال کیا۔

گزشتہ سے پیوستہ روز باجوڑ میں جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن پر خودمش حملہ کرنے کے دعویٰ کے ساتھ داعش خراسان چیپٹر نے حملہ آور عبداللہ مہاجر کی نقاب پوش تصویر بھی جاری کی۔ دولت اسلامیہ خراسان کی ویب سائٹ اور نیٹ نیوز ایجنسی "عماق نیوز" پر باجوڑ خودکش حملے کے حوالے سے جو چند سطری موقف دیا گیا اس سے بھی یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ معاملہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ہے۔

داعش خراسان چیپٹر کے خیال میں افغان طالبان چونکہ دیوبندی ہیں اس لئے پاکستان کی تقریباً تمام دیوبندی تنظیمیں فکری، مالی اور افرادی طور پر افغان طالبان کو سپورٹ کرتی ہیں۔ جے یو آئی بھی ایک منظم مذہبی و سیاسی قوت ہے دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی یہ جماعت ہمیشہ سے افغان طالبان کی حامی رہی ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ علاقے (پاکستان و افغانستان) کی تمام دیوبندی مذہبی سیاسی و عسکری تنظیمیں افغان طالبان کی امارت کو تسلیم کرتی ہیں اور ان کے افغانستان میں موجود ان کے لوگوں نے پچھلے برسوں میں افغان طالبان کی داعش کے خلاف بعض کارروائیوں میں حصہ لیا تھا اس لئے اب جوابی طور پر ان جماعتوں اور ہمدردوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ یہ پالیسی سلفی و دیوبندی عقائد سے زیادہ علاقے میں طاقت کے مظاہرے اور بالادستی کے قیام کی خواہش کا نتیجہ ہے۔

باجوڑ خودکش حملے کی ذمہ داری داعش خراسان چیپٹر نے اپنے فدائی کی تصویر جاری کرکے قبول کرلی۔ اس کے ایک دن بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے اسد آفریدی کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کابیان جاری کیا گیا۔

کالعدم ٹی ٹی پی نے کچھ ہی دیر بعد اس اعترافی بیان کی تردید جاری کی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسد آفریدی کے اکائونٹ کو ہیک کرکے جعلی دعویٰ آگے بڑھایا گیا۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اسد آفریدی کا ٹیوٹر اکائونٹ چار پانچ دن سے خاموش تھا۔ اس دوسرے اعترافی بیان کو عقیل یوسفزئی سمیت متعدد صحافیوں نے شیئر اور ری ٹیوٹ کیا۔ کچھ نے اس پر سوالات اٹھائے۔

اس بحث سے قطع نظر یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ داعش خراسان نے نہ صرف باجوڑ خودکش حملے کی ذم داری قبول کی بلکہ اپنے فدائی عبداللہ مہاجر کی تصویر بھی جاری کی۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے عبداللہ مہاجر ازبک جنگجو تھا اس کا بنیادی تعلق اسلامک موومنٹ ازبکستان سے ہے (جبکہ بعض ذرائع اسے افغان شہری بتارہے ہیں)۔ یہ تنظیم افغانستان میں منظم ہوئی طویل عرصہ تک یہ افغان طالبان کی اتحادی رہی کچھ عرصہ قبل اس کا ایک بڑا گروپ نصراللہ خلیل کی قیادت میں داعش خراسان سے جاملا۔

معاملہ جو بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ علاقے میں ایک نئی فرقہ وارانہ جنگ کا دروازہ کھلتا دیکھائی دے رہا ہے۔ پاکستانی ریاست اور مذہبی جماعتوں کو انتہائی دانشمندی اور تدبر کے ساتھ صورتحال سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔