وسیب یاترا کے دوسرے دن کی سپہر خانپور سے ہماری اگلی منزل لیاقت پور تحصیل میں ہمارے اور عابد رائو صاحب کے مشترکہ دوست رانا صہیب عالم کی اقامت گاہ تھی۔ لاہور سے روانگی کے بعد رائو صاحب نے رانا صہیب عالم کی دعوتِ ملاقات سے آگاہ کیا تب میں نے عرض کیا ہم نے واپسی کا سفر سمجھ لیجئے وسیب کی اندرونی شاہراہوں پر کرنا ہے اس لئے خانپور میں مختصر قیام کے بعد صہیب عالم کے پاس رک جاتے ہیں۔
اگلی صبح 28صفرالمظفر کی مناسبت سے اوچ شریف میں ہمارے جد بزرگوار سیدی ومولائی حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کی خانقاہ پر حاضری دے کر احمد پور شرقیہ کے لئے روانہ ہوں گے۔ عبداللہ خان بلوچ کی اقامت گاہ پر بھر پور محفل جمی وہاں سے لالہ ظفر اقبال جتوئی کے ہوٹل "ضیافت" پر کچھ دیر کے لئے رکے پھر حسب پروگرام رانا صہیب عالم کی اقامت گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
ہمارے یہ دوست لیاقت پور اور فیروزہ کے عین وسط میں میتلا ہسپتال کے قریب اپنے گائوں میں مقیم ہیں۔ رانا صہیب عالم ترقی پسند سیاسی کارکن، صاحب مطالعہ شخص اور پیپلزپارٹی کے قدیم ہمدردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہماری ان سے یاد اللہ چند برس قبل فیس بک کے ذریعے ہوئی اور پھر چند برس قبل ہی جب لالہ اقبال بلوچ نے لیاقت پور میں ہمارے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا تو تب وہ زحمت اٹھاکر ملنے کے لئے تشریف لائے اور ان سے تبادلہ خیال ہوا۔
انہوں نے اپنی اقامت گاہ پر پرتکلف عشائیہ کو مکالماتی نشست میں یوں تبدیل کیا کہ اپنے چند ان دوستوں کو بھی مدعو کرلیا جو علم و ادب تعلیم اور سیاست کے میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔
ان مدعوین میں لیاقت پور کالج میں اردو کے استاد ضیغم رضا کے علاوہ معروف جیالے جہانزیب بھٹی، سید راحت نقوی، صفدر قریشی کے علاوہ رانا شجاعت، رئیس فیاض، ابرار حمید گجر، رانا نعیم عالم بھی شامل تھے۔ رانا صہیب عالم کی اقامت گاہ پر سرشام شروع ہوئی محفل رات گئے تک جاری رہی۔
میزبان سمیت تمام مہمانوں نے دو عدد مسافروں پر سوالات کی بوچھاڑ کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک انہیں یہ احساس نہیں ہوگیا کہ مہمانوں کے حلق خشک اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہوگئی ہیں۔
زیادہ تر سوالات عصری سیاست کے مختلف ادوار، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، پیپلزپارٹی کی نصف صدی پر پھیلی جدوجہد، عمران خان اور ان کی جماعت کے مستقبل کے حوالے سے تھے درمیان میں کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے انسانی تاریخ کے مختلف ادوار، پاکستانی دستور کی تدوین اور ابتدائی مرحلہ میں ہونے والی آئینی ترامیم پر بھی ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی۔ (جوابات کے مرحلے میں عابد راو صاحب کی ترجمانی فقیر راحموں نے کی)۔
میزبان سمیت تمام مہمان اور خود میزبان کے برادران عزیز عصری شعور کی دولت سے مالامال تھے اس لئے کسی سوال کے جواب یا آزاد خیالی کے تڑکے سے مسئلہ پیدا نہیں ہوا ورنہ ہمارے ہاں بہت محنت کے ساتھ جس قسم کا ماحول بنادیا گیا اس ماحول میں عام فہم انداز میں بھی بات کرنے سے اب ڈر لگتا ہے کیونکہ پتہ نہیں چلتا کب کون کون سی بات کو توہین کے زمرے میں کھینچ لیا جائے اور سر تن سے جدا کا نعرہ بلند کردے۔
میزبان کے دوسرے سوالوں کے ساتھ سرائیکی قومی تحریک کے حال اور مستقبل کے حوالے سے بھی ایک دو سوال تھے ان کے جواب میں عرض کیا کہ وسیب کی رائے عامہ کو منظم کرنا اور وسیب کے اندر مقیم غیرسرائیکی اکائیوں کا قوم پرستوں کی سیاست پر اعتماد بحال کرنا ازبس ضروری ہے۔
قوم پرستوں کو آبادی کے مختلف طبقات کے سامنے یہ بات رکھنا ہوگی کہ وسیب کے اندر جو بھی آباد ہے ہمارے نزدیک وہ وسیب زاہ ہے ہم سب کو مل کر وسیب کے صوبائی تشخص کے قیام اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ وسیب مخالف قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے ماضی کی طرح فرقہ وارانہ انتہا پسندی اور نسلی منافرت کو ہوا دے کر سرائیکی قومی تحریک کو اسی طرح ناکام بنانے کی سازشیں جاری رکھیں گی جیسی سازشیں 1980ء کی دہائی کے اوائل میں سرائیکی صوبہ محاذ کے قیام اور ابتدائی مرحلہ پر اسے ملی عوامی پذیرائی سے بوکھلاکر کی گئیں اور پورے وسیب میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ شروع ہوگیا تھا۔
اسی نشست میں اس امر پر بھی تقریباً اتفاق رائے تھا کہ سیاسی جماعتوں اور بالخصوص پیپلزپارٹی کو سوچنا ہوگا کہ کیا سیاسی جدوجہد باشعور سیاسی کارکنوں کے بغیر انویسٹروں اور نالی موری کے ٹھیکیداروں کے ذریعے ممکن ہے؟ نئی نسل کی سیاسی تربیت کے لئے مقامی سطح پر مکالماتی نشستوں کے انعقاد کے ساتھ اس پر بھی اتفاق ہوا کہ نئی نسل کو مطالعہ کی ترغیب دی جائے۔
میں نے عرض کیا کہ مہنگائی اور دوسرے مسائل کی وجہ سے موجودہ حالات میں مطالعہ کے لئے کتابوں کی خریداری سفید پوش خاندانوں کے ان نوجوانوں کے لئے یقیناً ایک مسئلہ ہوگا جو مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اس کا حل یہ ہے کہ جو کتابیں پڑھی جانا ضروری ہیں مختلف افراد ان میں سے ایک ایک کتاب خریدیں پڑھنے کے بعد دوسرے دوستوں سے کتب کا تبادلہ کرلیں اس کے ساتھ ہی جو پڑھا ہے اس پر ہم خیال دوستوں تے تبادلہ خیال بھی کریں۔
یہ بھی عرض کیا کہ آج کے حالات میں بہت ضروری ہے کہ سیاسی عمل میں شرکت کے خواہش مند حضرات روزگار کے مستقل ذریعے کے قیام پر بھی اتنی ہی توجہ دیں جتنی سیاسی عمل پر دینا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کے سٹڈی سرکل پر بھی بات ہوئی اس ضمن میں عرض کیا کہ مہینے میں ایک بار سٹڈی سرکل ضرور ہونا چاہیے اپنے علاقے یاضلع سے کسی صاحب علم و دانش کو ایک خاص موضوع پر گفتگو کے لئے مدعو کیجئے۔
یہ سوال بھی اٹھاکہ آخر سیاسی جماعتیں ناکام کیوں رہتی ہیں ہر بار اسٹیبلشمنٹ کا زہریلا پروپیگنڈہ ہی کیوں جیت جاتا ہے؟ عرض کیا کہ ہمیں یہ بات شعوری طور پر سمجھنا ہوگی کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست تھا نہ ہے یہ پہلے دن سے ایک ایسی سکیورٹی اسٹیٹ ہے جس کا اپنا بانی قیام پاکستان والے برس میں ہی مختلف غیرملکی اخبار نویسوں کوانٹرویو میں یہ کہہ چکا تھا کہ "ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں بننے والا پاکستان لادین سوویت یونین کے مقابلہ میں امریکہ کا فطری اتحادی ہوگا"۔
مثلاً معروف صحافی برک وائٹ کو دیئے گئے انٹرویو سے کئی ماہ قبل قائداعظم نے امریکی سفارتکاروں سے خطاب کے دوران ایسی توقعات کا اظہارکیا کہ "امریکہ کو پاکستان کی معاشی اور عسکری امداد کرنی چاہیے تاکہ پاکستان مسلمان ممالک کو سوویت یونین کے خلاف متحرک کرسکے"۔
مئی 1947ء میں قائداعظم نے مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کے لئے امریکی دفتر خارجہ کے اہلکار ریمنڈ ہیئر اور نئی دہلی میں امریکہ کے سیکنڈ سیکرٹری تھامس ویل سے کہا "مشرق وسطیٰ کو ہندو سامراج سے بچانے کے لئے پاکستان کا کا قیام ناگزیر ہے"۔
مذکورہ حوالہ جات شرکائے محفل کی خدمت میں گوش گزار کرتے ہوئے عرض کیا کہ ایک سکیورٹی اسٹیٹ میں عوامی جمہوریت کے سیکولر ڈھانچے کا قیام طویل المدتی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔
سکیورٹی اسٹیٹ کو سیکولر عوامی جمہوریت کی جگہ ایسی طبقاتی جمہوریت پسند ہوتی ہے جس میں ہلکے پھلکے مذہبی تڑکے کے تماشے لگاتے رہیں اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکتے ہیں اور یہی جذبات سکیورٹی اسٹیٹ کے لئے ایندھن کا کام دیتے ہیں۔
یہ بھی عرض کیا کہ 9 مئی کے واقعہ سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوئی ہے اسے کمزور کرنے اور طبقاتی جمہوریت کے کوچے میں سے عوامی جمہوریت کا راستہ نکالنے کے لئے اندھی جذباتیت کی نہیں سنجیدہ حکمت عملی اور پرعزم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ لگ بھگ 6 گھنٹے جاری رہنے والی یہ محفل یاد رہ جانے والی محفلوں میں ایک ہے۔