پچھلے ہفتہ کے دوران نہ چاہتے ہوئے بھی مختلف موضوعات پرحال ہی میں شائع ہونے والی سات آٹھ کتابیں منگوانا پڑیں۔ کتابیں خریدنا اور پھر پڑھنا مجبوری بھی ہے عادت بھی اور ضرورت بھی۔کتابوں سے یاد آیا مالک مکان نے گھر خالی کرنے کا محبت بھرا حکم سنادیا ہے۔ نیا گھر کہاں لینا ہے کتنے دنوں میں مل سکے گا اس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ آسمان کو چھوتے مکانات کے کرائے بھی ہیں۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہزاروں کتابوں کو پھر سے پیک کرنا اور اگلے ٹھکانے پر جاکر ترتیب سے رکھنا ہے۔ کرایہ داروں کی بھی کیا زندگی ہے مالکان کے رحم و کرم پر جینا ان کی مجبوری ہے۔
خیر اب سر آن پڑی ہے تو نیا مکان تلاش کرنا ہی ہوگا، سامان باندھنا اور پھر اگلے گھر پر کھولنا کیسا اذیت ناک کام ہے۔ ایک طرح کی محتاجی ہی ہے۔ چلیں دیکھتے ہیں قسمت کہاں لے جاتی ہے۔بات کتابوں سے شروع ہوئی تھی، پڑھنے کو تو ہم ہر دستیاب کتاب پڑھ لیتے ہیں لیکن تصوف، تاریخ اور سیاسیات کے ساتھ سوانح عمریاں کچھ زیادہ پسند ہیں۔ تازہ تازہ منگوائی گئی کتابوں میں ایک ناول ہے۔ ایک خاکوں کی کتاب۔ دو تین سیاسی کتابیں ہیں اور کچھ سوانح عمریاں۔ ان میں سے سابق سفیر سید سبطِ یحییٰ نقوی کی سوانح عمری "جو ہم پہ گزری" دو نشستوں میں پڑھ ڈالی۔ ایک اور سابق سفارتکار کرامت غوری کی سوانح عمری "روزگارِ فقیر" پڑھ رہا ہوں۔
دونوں سابق سفارتکار بزرگ اب خاندانوں سمیت کینیڈا میں آباد ہیں۔ سید سبطِ یحییٰ نقوی کی سوانح عمری میں سب سے زیادہ لطف ان کی سادہ بیانی اور خوبصورت اردو سے آیا۔ ظاہر ہے امروہہ سے ہیں اور اردو گھر کی "لونڈی" ہی ہوئی۔ کرامت غوری بھی مشکل اردو نہیں لکھتے پھر بھی جملوں پر بناوٹ کا احساس دوچند ہوتا ہے۔
پڑھنے کو تو لکھنؤ سے تعلق رکھنے اور جرمنی میں مقیم پروفیسر عارف نقوی کی داستان حیات بھی زیرمطالعہ ہے لیکن وہ بہت الگ سی کتاب ہے، وضعداری، انسان دوستی، ترقی پسندانہ رجحانات، علم کے متلاشی جستجو کو زندگی سمجھنے والے عارف نقوی، سید سجاد ظہیر(بنے بھیا)کے ساتھ دہلی سے نکلنے والے ترقی پسند تحریک+ کمیونسٹ پارٹی کے جریدے میں معاون ایڈیٹر بھی رہے۔ پروفیسر عارف نقوی کی داستان حیات پر کسی اور کالم میں بات کریں گے۔ فی الوقت سید سبطِ یحییٰ نقوی اور کرامت غوری کی تصانیف پر باتیں کرتے ہیں۔
نقوی صاحب انٹر کرکے پچاس کی دہائی کے بعد بھارت سے پاکستان آئے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواہش تھی کہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازت مل جائے لیکن پھر مقابلہ کے امتحان میں بیٹھے۔ دونوں بار کامیاب ہوئے۔ وزارت خارجہ میں چلے گئے۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ بیوروکریسی میں بروقت ترقی اور اچھی پوسٹوں کے لئے پشت پر مضبوط ہاتھ کا ہونا ضروری ہے۔ انہیں تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی "مرنجا مرنج" طبیعت بہت پسند آئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں انہوں نے چند "سُنی سنائی" باتیں آگے بڑھائیں حالانکہ انہیں ذاتی مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہیے تھا لیکن پتہ نہیں "کچی پکی روایات" کو بیان کرنے میں کیا مصلحت تھی۔ اس کے برعکس انہوں نے جنرل ضیاء الحق کا ذکر دریادلی کے ساتھ کیا۔
باوجود اس کے کہ وہ کسی حملہ آورخاندان کے فرزند نہیں بلکہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو بلادِ عرب سے روزگارِ دنیا کے نئے جہاں تلاش کرنے پہلے اوچ شریف پہنچا اور وہاں سے امروہہ جابسا۔ ان کے جدِ بزرگوار سید حسین شرف الدین شاہ ولایتؒ، برصغیر میں نقوی البخاری سادات کے جدامجد حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کے بھانجے اور داماد تھے۔
سادات کے جو چند خانوادے بلاو عرب سے روزگار دنیا کے نئے جہانوں کی تلاش میں ہند و سندھ پہنچے وہ مزاجاً ان خاندانوں سے یکسر مختلف ہیں جو بیرونی حملہ آوروں کے ہمراہ آئے تھے۔ یا پھر قابض لشکر کے ایما پر آکر یہاں بسے۔خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ویسے چند دن قبل ان سطور میں ہجرت کرنے والوں کے تین طرح کے رویوں بارے تفصیبل کے ساتھ عرض کرچکا۔
سید سبطِ یحییٰ نقوی دوران ملازمت کوئی مضبوط (بھاری بھرکم) سفارش نہ ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر نظرانداز ہوئے اس کا تذکرہ بھی انہوں نے کچھ اس انداز میں کیا کہ جیسے دل پر اس کا بوجھ نہ ہو بس ذکر ضروری تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ وزارت خارجہ میں آئے۔ 2008ء میں بطور سفیر ملازمت کا اختتام ہوا۔ اگلا ایک برس انہوں نے حکومت پاکستان کی طرف سے ایک عالمی ادارے میں بطور مشیر بسر کیا اور 2009ء میں ملازمت کے جھمیلوں سے آزاد ہوگئے۔
ملازمت کے دوران انہوں نے کراچی میں اپنے خاندان اور سادات امروہہ کے ساتھ مل کر اپنے جد امجد حضرت حسین شرف الدین شاہ ولایتؒ کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ یہ تعلیمی ادارہ آج کراچی کے ان چند اعلیٰ تدریسی اداروں میں شمار ہوتا ہے جہاں مستحق بچوں پر ہر معاملے میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
نقوی صاحب نے ذوالفقار بھٹو سے 2009ء تک کے اہل اقتدار دیکھے بھگتے ان کے حوالے سے انہوں نے جستہ جستہ کچھ یادیں بھی کتاب کا حصہ بنائیں۔"جو ہم پہ گزری"ظاہر ہے ان کی داستان حیات ہے انہیں حق ہے جو لکھیں۔ بالائی سطور میں عرض کیا کہ انہوں نے بھٹو صاحب کے حوالے سے "سُنی سنائی" روایات کو آگے بڑھایا۔"سنی سنائی" پر اعتبار جاں کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ان کی اپنے ایک دوسرے ہم عصر سفارتکار کرامت غوری سے بہت یاداللہ ہے۔
غوری صاحب نے نقوی صاحب کی کتاب کا مقدمہ بھی لکھا ہے۔ خبط عظمت، من حاجی ہستم کے زعم اور مقامیت سے بغض سے بھرا ہوا یہ مقدمہ کرامت غوری کی شخصیت کا تعارف کروادیتا ہے۔
سیدی نقوی نے سفارتکاری کے ماہ و سال کی کہانیاں سادہ پیرائے میں بیان کیں۔ مشکلات اور مسائل کا ذکر بھی کیا اور بیرون ملک دوروں پر جانے والے ارباب حکومت کے نخروں، اللوں تللوں کے ساتھ ان کے "شاہانہ مزاج" کی بھی بھر پور عکاسی کی۔ بھٹو خاندان یا یوں کہہ لیجئے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے حوالے سے بھی سوئئزرلینڈ کی ایک عہدیدار کی روایت (وہی کرپشن کہانی) کو آگے بڑھایا۔
مناسب یہ ہوتا کہ ان جیسا صاحب علم روایت کی باقاعدہ تصدیق کرلیتا بنا تصدیق کے بات کو آگے بڑھانے سے ان کی ساکھ پر حرف آیا ہے (کم از کم میری یہی رائے ہے)ہم ان سے یہ شکوہ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت کے دورانیہ کے حکمرانوں، خود وزارت خارجہ کے "معاملات" کو نظرانداز کیا اسی سے یہ تاثر ابھرا کے بھٹوز بارے ان کے خیالات اور روایات دونوں کسی تعصب سے لگا کھاتے ہیں۔
سید سبطِ یحییٰ نقوی نے 37برس تک ملک کی خدمت کی ان کی سب سے بڑی خدمت شام کے دارالحکومت دمشق میں پاکستانی سکول کے لئے اراضی حاصل کرنا اور سکول کی آمدنی سے عظیم الشان عمارت تعمیر کروانا ہے۔اسی خدمت کے صلے میں وہ اپنی وزارت کے چند بڑوں کے حسد اور کم ظرفی دونوں کا شکار ہوئے۔
ایک سے زائد انکوائریوں کے باوجود دامن صاف ہی رہا تو کج فہموں نے بدلہ یوں چکایا کہ انہیں اگلے گریڈ میں ترقی تاخیر سے دی جس سے ظاہر ہے انہیں یہ نقصان ہوا کہ بروقت سفیر بن پائے اور نہ انہیں اپنی پسند کی پوسٹنگ ملی۔
ان کی تصنیف "جو ہم پہ گزری" پڑھنے کی چیز ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنے جد بزرگوار حضرت حسین شرف الدین شاہ ولایتؒ کی داستانِ حیات بھی رقم کردیں۔ یہ ہوجائے تو بہت اعلیٰ اور ہمیشہ یاد رہنے والا کام ہوگا۔ کرامت غوری کی تصنیف "روزگارِ سفیر" پر نقدونظر ادھار سمجھ لیجئے، کسی اگلے کالم میں اس پر بات کریں گے۔