ایک ایسی ریاست جسے سیکورٹی سٹیٹ کے طبقاتی نظام سے ہانکا جارہا ہوں اس میں مکافات عمل کی بات یا تکرار پر ہنسی آتی ہے اور گاہے رونا بھی۔ چیزوں، معاملات، سیاست اور تایخ کو اپنے عصری شعور کے ساتھ سمجھنے کے سفر کو نصف صدی سے چند برس اوپر ہو گئے ہیں۔ میں سفر حیات کے 67 برس پورے ہونے سے 13 دن (کالم کی اشاعت سے) کے فاصلے پر ہوں عملی زندگی میں زندگی کے 9 ویں برس میں قدم رکھا تھا، پندرہویں برس میں قلم مزدوری شروع کی تھی، باون برس ہو چلے باقی کا سفر کتنا ہے اور اپنے حصے کی مزدوری کتنی اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے۔
پیشنگوئی تو بالکل بھی نہیں کی جاسکتی ہاں یہ سچ ہے کہ میں پچھلے چند برسوں سے سانسوں کی ڈور کے کٹنے کا منتظر ہوں۔ آپ اسے مایوسی کہیں گے لیکن میں سانسوں کے سفر کا بونس، اب یہ بونس اصل میں ہے کتنا یہ ہم نہیں جانتے۔
میرے اکثر دوستوں اور بالخصوص ہمزاد فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ "اچھا بھلا عصری سیاست سماجیات اور تاریخ پر لکھ رہے ہوتے ہو پھر اچانک اپنی باتیں لے بیٹھتے ہو " یہ کیوں؟ میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں ہم جس کل کا ذکر کررہے ہوتے ہیں وہ تاریخ ہے آج لمحہء موجود اور کل ہم اسی تاریخ کا حصہ ہوں گے۔
ساعت بھر کو رُکیئے مجھے حسین بن منصور حلاج شہید یاد آرہے ہیں حلاج کہتے ہیں "ہم ہیں تم ہو تم ہو ہم ہیں تم بھی کہاں ہو بس ہم ہیں اور ہم ہی ہم ہیں" عرض کرنے کا مقصد یہ ہے ہم اپنی باتیں ہی کرتے ہیں ماضی حال اور مستقبل کی اس سے سوا کیا باتیں ہوں؟
ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا "ایک ایسی ریاست جسے سیکورٹی سٹیٹ کے طبقاتی نظام سے ہانکا جارہا ہو مکافات عمل کی بات یا تکرار پر ہنسی آتی ہے اور گاہے رونا بھی"۔ صاف سیدھے انداز میں یہ کہ طبقاتی نظام کے لچھن ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں وہ قذافی اسٹیڈیم میں ظاہر ہوئے ہوں، کبھی نیب کے دفتر کے باہر یا اڈیالہ جیل کے باہر۔ اس طبقاتی نظام کے مہرے چہرے تبدیل ہوتے ہیں لچھن نہیں اس لئے میں مکافات عمل کے لالی پاپ سے کبھی خود کو نہیں بہلاتا۔
ہاں یہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ جس جذبہ سے آج آپ سیکورٹی سٹیٹ کے طبقاتی نظام کی بالادستی میں حصہ ڈالیں گے کل جواب اسی تناسب سے اور گاہے زیادہ تناسب سے وصول کرنا پڑے گا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پسند و ناپسند نے جنون کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ہم آپ ہوں کہ چار اور کا ہرشخص اسی جنون کا شکار ہے۔ اعتراف کرنے کی بجائے ہم دوسرے پر پھبتی کس کے تسکین پاتے ہیں۔ بہر حال دوانتہاوں میں تقسیم سماج میں اپنی بات کہنی چاہئے یہ دیکھے بنا کہ آپ کی بات کی بھد اُڑے گی یا اس پر دلیل سے بات آگے بڑھائی جائے گی۔ میں بھی اپنی بات کرتا ہوں اپنے فہم اور مشاہدے و مطالعے کی بنیاد پر جنہیں کبھی کبھی مکالمے سے رزق مل جاتا ہے۔
مجھے اپنی کہی لکھی بات پر طعنے سننا پڑتے ہیں دو طعنے اکثر ملتے ہیں ایک عقیدے کا اور ایک پیپلز پارٹی اے این پی یا قوم پرستوں کیلئے ہمدردی رکھنے کا۔
لمحہ بھر کیلئے دکھ ہوتا کہ جو عرض کیا یا لکھا لوگ اس پر بات کرنے کی بجائے عقیدے پر تبرا کیوں واجب سمجھتے ہیں یا سیاسی پسندوناپسند جرم کیوں؟
حالانکہ یہی لوگ اپنی سیاسی و مسلکی محبت کے حق میں کہنے لکھنے والوں سے اس غیرجانبداری کی توقع نہیں کرتے جس کا ہم سے تقاضا کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نصف صدی سے ان کالموں میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ میں غیرجانبدار ہرگز نہیں ہوں نہ کسی سے اس کا تقاضا کرتا ہوں۔ اب تو خیر ہمارے سپر انقلابی و انصافی دوستوں کے محبوب رہنما عمران احمد خان نیازی یہ فرماچکے کہ "غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے" اس لئے کون غیرجانبداری کی جانوری کمائے یعنی تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو کے مصداق معاملہ ہے۔
معاف کیجے ہم اصل موضوع سے کچھ دور ہوگئے مگر کیا کیجے پہلے سے ذہن بناکر یا نوٹس لکھ کر ان کالموں کے حروف نہیں جوڑتا اس لیئے ادھر ادھر نکل لیتے ہیں۔ اس ادھر ادھر نکل لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی کل ہی ہم ایک جیئد انقلابی و وحدتی مولانا صاحب کا ایک پرانے خطاب کا ویڈیو کلپ سُن رہے تھے کہ اچانک فقیر راحموں نے بے سُری آواز میں گانا شروع کردیا "سانوں عاقبت آلے ٹرک پچھے نسا کے، آپ مولی دنیا دار ہوگیا" اب بتائیں کیا کیا جائے۔
ویسے ہمارے برادر عزیز سید عمار یاسر کاظمی کا اس بارے کہنا ہے کہ مطالعہ مشاہدہ حالات اور تجربے آدمی اور مولوی دونوں کو سمجھا دیتے ہیں، مجھے ان کی بات سے اختلاف کا یارا نہیں وقت بہت بڑا استاد ہے۔ یہ وقت کی استادی ہی ہے کہ ایک شخص جو انسانِ کامل و معصوم کی سیادت میں چلنے جینے کے طور طریقے سیکھاتا ہو خود دنیادار ہوجائے تو اس دنیا داری کو بھی عاقبت کے سفر کا ایک پڑاو سمجھا سمجھایا جائے۔
اب کیا عرض کریں فقط یہی کہ یہاں سب گڈ مڈ ہوگیا ہے دینداری ہو کہ دنیاداری مطلب یہ کہ ہم سبھی ایک ایسے سماج میں جی بس رہے ہیں جس کی کوئی کِل سیدھی نہیں یہ الجھاو کیسے دور ہو اس بارے تو اہلِ دانش ہی بتاسکتے ہیں ہم تو طالبعلم ہیں۔
عرض یہ کررہا تھا کہ سیکورٹی سٹیٹ کے طبقاتی نظام کے لچھنوں کو دوام دینے میں آپ آج جتنا حصہ ڈالیں گے کل بمعہ سود وصول فرمائیں۔ کچھ نے اپنے اپنے وقت پر وصول فرمایا کچھ وصول کررہے ہیں اور کل کلاں کو سیکورٹی سٹیٹ کے محبت کا محور تبدیل ہوگیا جو کہ ہونا ہی ہے کیونکہ اس کی بقا اور دوام ہی محبتوں کا محور بدلتے رہنے میں ہے۔
آپ کو اگر میری بات مشکل لگتی ہوتو دوسری جماعت میں پڑھے بندر کے انصاف والی کہانی کو حافظے میں تازہ کیجے آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ کیا عرض کررہا ہوں۔
سفر حیات کے 67 ویں موڑ سے چند قدموں کی مسافت پر کھڑے اس قلم مزدور طالبعلم کو سپر ڈپر یا آدھا پونا انقلابی بننے کا کوئی شوق اور "شونق" بالکل بھی نہیں ویسے بھی ہم اپنے حصے کے سارے شوق اور "شونق" پورے کر آئے ہیں ہاں یہ ہم پہ واجب ہے کہ ہم نئی نسل کو یہ ضرور بتائیں دوست زیادہ سے زیادہ بنائیں دشمن کم سے کم۔
سیکورٹی سٹیٹ کی طبقاتی جمہوریت سے لڑنا بالکل نہیں بلکہ تدبر و دانش سے آگے بڑھنے کے لئے راستہ نکالنا ہے طبقاتی نظام کے رکھوالے اور ساجھے دار اپنے تئیں کوشش کریں گے کہ آپ کو تشدد پر اُکسائیں یہی لمحہ امتحان ہوگا۔ اگر اس امتحان میں کامیاب ہوئے تو وہ منزل مل سکے گی جسکے حصول کیلئے آپ جدوجہد کرتے یا سوچتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں سیکورٹی سٹیٹ اور طبقاتی نظام کے شکنجے مزید سخت ہو جائیں گے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا والی بات درست نہیں اسی طرح سیاسی عمل میں دوست اور مخالف بدلتے رہتے ہیں۔ مقرر عرض ہے دوستوں کی تعداد بڑھنی چاہئے اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل میں موجود سیاسی جماعتوں سے سے معاملہ کیا جائے تبھی بہتری آسکتی ہے۔