گزشتہ کئی برسوں سے نظام تعلیم اور نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر جو تبدیلیاں مسلط کی جا رہی ہیں، وہ بے حد غیر معمولی اور تشویشناک ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ نصاب ساز اداروں کی اصل حیثیت، ان کی ذمہ داریوں کے دائرہ کار اور ان پر ہونے والی فنڈنگ ملک کے کسی حکومتی فورم پر کبھی بھی سنجیدگی سے زیر بحث نہیں آئی، بلکہ عوام کی طرف سے حکمرانوں کی توجہ کو اس جانب مبذول کرنے کی کوششوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔
اسلامیات و دینیات جیسے بنیادی مضامین میں کیے جانے والے غیر شفاف رد و بدل، مطالعہ پاکستان کی تفہیم میں لائی گئی یکطرفہ تبدیلیاں اور فلسفہ و ادب جیسے اہم مضامین کا ڈنک نکالنے کے لیے کی جانے والی چھیڑ چھاڑ پر اگرچہ وقتاً فوقتاً عوامی سطح پر ردعمل ظاہر ہوا، لیکن نصاب سازی سے متعلق یہ تمام اقدامات حکومتی سرپرستی میں ہونے کی وجہ سے کبھی بھی مؤثر باز پرس کی زد میں نہیں آئے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان پر آج بھی مختلف سامراجی و استعماری کنٹرولز مسلط ہیں، خواہ وہ ظاہری طور پر نظر نہ آتے ہوں لیکن دن بہ دن نوجوان نسل کا قومی و ملی شعور سے بیبہرہ ہوتے جانے کا عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں نظریاتی سطح پر بہت چالاکی سے کمزور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان ایک مظلوم ملک کی حیثیت سے وہ المیہ بھی جھیل چکا ہے جب اسے دو لخت کیا گیا، لیکن اس سانحے اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات پر جو کچھ لکھا گیا یا جتنا بیانیہ دنیا کے سامنے آیا، وہ زیادہ تر بیرونی مآخذ اور اغیار ہی کی جانب سے ڈیزائن شدہ تھا۔
گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان کو ایک طرف فرقہ واریت کے عفریت کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اس دوران ہم نے ہزاروں قیمتی جانیں قربان کیں اور کھربوں روپے کا معاشی نقصان برداشت کیا، مگر ستم ظریفی یہ رہی کہ دہشت گردی کا لیبل بھی ہمارے ہی ماتھے پر چسپاں کیا جاتا رہا۔ تاہم، معرکہ حق (آپریشن بنیان مرصوص) کی صورت میں قدرت نے طویل عرصے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر عزت، وقار اور نیک نامی سے نوازا ہے۔
قومی یکجہتی کے مظہر اس آپریشن کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ فرقوں اور سیاسی و سماجی گروہوں میں بٹی پوری قوم ایک پیج پر متحد ہوگئی۔ ملک بھر میں تمام مذاہب، تمام مسالک، تمام طبقات اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ریلیاں نکالیں اور افواجِ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
ہمارے لیے نئی نظریاتی صف بندی کا ایک نادر موقع ہے۔ اس تاریخی کارنامے نے علی الاعلان پاکستان کے ازلی دشمنوں، اسرائیل اور بھارت کی مکاری، عظمت کے گھمنڈ اور بربریت کو بے نقاب کرکے انہیں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے، جس پر "غرور کا سر نیچا"کی کہاوت بالکل صادق آتی ہے۔ افواج پاکستان کی قربانیاں ہر دور میں تاریخ کے صفحات کو اپنے لہو سے سرفراز کرتی رہی ہیں، لیکن آپریشن بنیان مرصوص کی شاندار کامیابی نے ایک منفرد اور ناقابل فراموش تاریخ رقم کی ہے۔ اب ریاستی سطح پر اس تاریخ کو اپنے ماتھے کا جھومر بنانے کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کو فوری طور پر معرکہ حق کو میٹرک سے لیکر ماسٹرز لیول تک کے نصاب میں شامل کرنے کے احکامات جاری کرنے چاہئیں۔ اس عظیم فوجی کارروائی کے مرکزی کرداروں، جن میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کے علاوہ وہ بے شمار افسران اور جوان شامل ہیں جنہوں نے اس معرکہ میں براہ راست حصہ لیا، نیز شہید اور زخمی ہونے والے ہیروز، ہماری قوم کا سب سے بڑا فخر ہیں۔
ان تمام ہیروز کے یادگاری مجسمے، پینٹنگز اور شاعری کو عوامی مقامات پر نمایاں طور پر آویزاں کیا جانا چاہیے، لائبریریاں، سڑکیں اور اہم عوامی مقامات ان کے ناموں سے منسوب ہونے چاہئیں، کیونکہ زندہ قومیں اپنی ایسی ہی عظیم میراث سے پہچانی جاتی ہیں۔ یہ آپریشن محض ایک فوجی مہم نہیں، بلکہ ایک گہرا نظریاتی، اخلاقی اور روحانی پیغام ہے جو پاکستان کے مضبوط وجود، اس کی بے پناہ دفاعی صلاحیت اور دشمن کے مقابلے میں انتہائی منظم و مستحکم ہونے کا ثبوت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ آپریشن کی تفصیلات، شہداء کی قربانیوں، فوجی حکمت عملی اور دشمن کی مکمل ناکامی کو تاریخ، شہریات اور مطالعہ پاکستان جیسے مضامین کے نصاب کا لازمی حصہ بنائے، جسے بصری مواد، دستاویزی فلموں اور عملی سرگرمیوں کے ذریعے مؤثر طریقے سے پڑھایا جائے۔ یہ نصاب ہماری آنے والی نسلوں کو یہ قیمتی سبق دینے کا ذریعہ ہوگا کہ پاکستان، بھارت جیسی بڑی معیشت، بڑی فوجی و افرادی قوت اور مکاری میں ماہر ملک کی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اب یہ کہ مادر وطن کا دفاع ہر حال میں اور ہر قیمت پر نوجوان نسل کا اولین فریضہ ہے۔