اگر عمران خان واقعی پاکستان کو اپنی زندگی کا مقصد، مقدر اور نظریاتی مرکز سمجھتے ہیں تو ایک نہایت سنجیدہ، تلخ اور ناگزیر سوال یہ خود بخود جنم لیتا ہے کہ ان کی ذاتی اور خاندانی ترجیحات میں پاکستان کی عملی حیثیت آخر کہاں کھڑی ہے، کیونکہ سیاست میں محض دعوے نہیں بلکہ فیصلے بولتے ہیں اور ان فیصلوں میں سب سے اہم فیصلہ شہریت، مستقل وابستگی اور مستقبل کے انتخاب کا ہوتا ہے۔
ایک ایسا رہنما جو برسوں سے حب الوطنی، خودداری، قومی غیرت، ریاستی خودمختاری اور بیرونی غلامی سے نجات کا بیانیہ دہراتا رہا، جس نے عوام کو یہ باور کرایا کہ پاکستان ایک عظیم، باوقار اور خودمختار ریاست بن سکتا ہے، اس کے اپنے بالغ، تعلیم یافتہ اور بااختیار بیٹوں کا شعوری طور پر پاکستانی شہریت اختیار نہ کرنا اور برطانوی شہریت کو برقرار رکھنا محض ایک قانونی یا تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ ایک گہری قومی اور فکری علامت ہے، کیونکہ شہریت صرف پاسپورٹ یا سفری سہولت کا نام نہیں بلکہ اس ریاست کے نظامِ انصاف، تحفظ، ادارہ جاتی استحکام، معاشی مواقع اور مجموعی مستقبل پر اعتماد کا اعلان ہوتی ہے اور جب یہ اعتماد کسی اور ریاست پر منتقل ہو جائے تو دعوؤں کی ساکھ خود بخود مشکوک ہو جاتی ہے۔
اگر پاکستان واقعی عمران خان کے تصور کے مطابق ایک قابلِ فخر، مضبوط اور خودمختار ملک ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے بیٹوں نے اسی ریاست کے ساتھ اپنی مستقل وابستگی کیوں اختیار نہ کی، کیوں انہوں نے اپنی زندگی، تعلیم، کیریئر اور قانونی شناخت ایک ایسے ملک کے سپرد کی جسے وہ عملاً زیادہ محفوظ، مستحکم اور قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں اور یہی وہ تضاد ہے جو ناقدین کے نزدیک عمران خان کی سیاست کی بنیاد میں موجود ہے۔
اس تضاد کو مزید تقویت اس حقیقت سے ملتی ہے کہ عمران خان کے بیٹوں نے کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہیں کی، نہ یہاں تعلیم حاصل کی، نہ کسی پیشہ ورانہ یا سماجی میدان میں عملی خدمات سرانجام دیں اور نہ ہی کسی فلاحی، تعلیمی یا سماجی منصوبے کے ذریعے پاکستانی معاشرے سے دیرپا رشتہ جوڑا، جس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ پاکستان ان کے لیے ایک حوالہ تو ہو سکتا ہے مگر عملی ترجیح نہیں۔
یہ دوری اس وقت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران، سفارتی دباؤ، داخلی عدم استحکام اور سیکیورٹی چیلنجز سے دوچار ہوتا ہے، کیونکہ ایسے نازک ادوار میں وہ مکمل طور پر بیرونِ ملک محفوظ ماحول میں موجود رہے، نہ انہیں مہنگائی کی اذیت کا سامنا کرنا پڑا، نہ بے روزگاری کا خوف، نہ ادارہ جاتی انتشار کے اثرات اور نہ ہی روزمرہ زندگی میں عدم استحکام کی قیمت ادا کرنا پڑی، جبکہ یہی بوجھ عام پاکستانی عوام نے اٹھایا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے بیٹے اپنے والد سے ملنا چاہتے ہیں اور ان کی رہائی کے خواہاں ہیں، مگر یہاں بھی ایک بنیادی اور فکری تضاد ابھر کر سامنے آتا ہے کیونکہ وہ رہائی کسی قومی مفاہمت، سیاسی برداشت، آئینی عمل یا ریاستی استحکام کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسی ضد، تصادم اور ہٹ دھرمی کے تسلسل کے ساتھ چاہتے دکھائی دیتے ہیں جس نے گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی سیاست کو مفلوج، اداروں کو آمنے سامنے اور معاشرے کو گہری تقسیم میں مبتلا کیا، حالانکہ ایک ذمہ دار، باشعور اور مخلص اولاد کا کردار یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ والد کو ٹکراؤ کے بجائے مکالمے، آئین، قانون اور قومی مفاد کی راہ دکھاتی۔
ناقدین کے مطابق عمران خان کی سیاست نے ملک کو مسلسل بحرانوں کی دلدل میں دھکیلا، جہاں ادارہ جاتی تصادم معمول بن گیا، معیشت عدم استحکام کا شکار ہوئی، سرمایہ کاری کا اعتماد متزلزل ہوا اور معاشرہ شدید قطبیت میں بٹ گیا اور ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ کیا یہ واقعی ایک ہمدرد رہنما کی سیاست تھی یا اقتدار سے محرومی کے بعد ذاتی بیانیے اور سیاسی انا کو قومی مفاد پر ترجیح دینے کا عمل، مزید یہ کہ اگر عمران خان واقعی قانون کی بالادستی، اصول پسندی اور آئینی راستے پر یقین رکھتے ہیں تو پھر کسی سیاسی حل، مکالمے یا مفاہمت کو مکمل طور پر رد کرنا کس جمہوری منطق کے تحت درست قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جمہوری معاشرے ضد اور محاذ آرائی سے نہیں بلکہ لچک، برداشت اور ادارہ جاتی احترام سے آگے بڑھتے ہیں۔
اس تناظر میں عمران خان کے بیٹوں کی خاموشی یا بالواسطہ تائید ایسی سیاست کو اخلاقی جواز فراہم کرتی محسوس ہوتی ہے جو ریاستی کمزوری اور سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرتی ہے، جبکہ وہ خود اس کے نتائج سے محفوظ رہتے ہیں، کیونکہ نہ انہیں سیاسی افراتفری کا عملی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور نہ ہی قومی ناکامیوں کی قیمت ادا کرنا، حب الوطنی اگر محض سوشل میڈیا بیانات، جذباتی جملوں اور علامتی دعوؤں تک محدود رہے اور عملی فیصلے شہریت، رہائش، مستقبل اور تحفظ، سب پاکستان سے باہر کے حق میں ہوں تو یہ تضاد ناگزیر طور پر نیت، سنجیدگی اور وابستگی پر سوال اٹھاتا ہے، خاص طور پر جب سیاسی وراثت سے فائدہ تو اٹھایا جائے مگر اس کے ساتھ جڑی قومی ذمہ داری، قربانی اور جوابدہی قبول نہ کی جائے۔
اسی لیے ناقدین کے نزدیک پاکستان عمران خان کے بیٹوں کے لیے ایک نعرہ اور حوالہ ہے، جبکہ مغرب ایک عملی حقیقت، جہاں قانون، تحفظ، استحکام اور مواقع پر حقیقی اعتماد موجود ہے اور یہی فاصلہ عمران خان کی سیاست کا سب سے بڑا داخلی تضاد بن کر سامنے آتا ہے۔ نام پاکستان کا، مگر اعتماد کہیں اور۔ کیونکہ اگر واقعی پاکستان سے کوئی گہری اور غیر مشروط وابستگی ہوتی تو بیٹوں کا کردار ضد، تصادم اور مسلسل ناکام سیاست کے بجائے مفاہمت، استحکام اور قومی مفاد کے گرد گھومتا، مگر موجودہ طرزِ عمل اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر اسی انتشار پسند سیاست کے تسلسل کے خواہاں ہیں جس نے پہلے ہی ریاست کو کمزور، معیشت کو ناتواں اور معاشرے کو منقسم کر دیا ہے۔