تاریخ انسانی کے صفحات پر چند واقعات ایسے ہوتے ہیں جو محض ماضی کے حوالے نہیں رہتے، بلکہ اپنے گہرے فلسفے اور لازوال پیغام کے باعث ہر دور میں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے اور رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ واقعہ کربلا، جس کی مرکزی اور سرفروشانہ شبیہہ حضرت امام حسین ابن علیؑ کی ہے، ایسا ہی ایک عظیم الشان اور ہمیشہ زندہ رہنے والا واقعہ ہے۔ یہ محض ایک لڑائی یا سیاسی تصادم کا قصہ نہیں، بلکہ حق و باطل کی کشمکش، انسانی عزت و وقار، ظلم کے خلاف بے باک مزاحمت اور اصولوں پر جان قربان کر دینے کے ایک گہرے اور جامع فلسفے کا نام ہے۔
شہادت امام حسینؑ کا تصور، صرف جسمانی موت کا احاطہ نہیں کرتا، بلکہ یہ ایک ایسی حیاتِ جاوداں کی علامت ہے جو ظلمت کے مقابل نور، باطل کے مقابل حق اور جبر کے مقابل حریت کی علمبردار بن کر ہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کرتی ہے۔ امام حسینؑ نے اپنے عمل اور اپنی قربانی کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ کبھی کبھی سکوتِ مطلق اور ظلم کی حمایت یا اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا، زندہ رہنے سے بھی بدتر موت ہے، جبکہ اصولوں اور انسانی اقدار کے لیے لڑتے ہوئے شہادت پانا، موت کو بھی حیاتِ ابدی میں بدل دیتا ہے۔
آپ کی شہادت کا مقصد صرف اپنی جان دینا نہیں تھا، بلکہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ جب بھی حق کو مٹانے کی کوشش کی جائے، انصاف پامال ہو اور انسانیت کی عزت خاک میں ملائی جائے، تو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھا جا سکتا۔ یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جو کربلا کو صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ و جاوداں تحریک بنا دیتا ہے۔
امام حسینؑ کی عظیم قربانی کا ایک مرکزی اور انتہائی اہم پہلو مسلم امت کی یکجہتی اور اخوت کے تصور کو زندہ کرنا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ آپ نے یزید کی بیعت اس لیے مسترد کی کہ وہ ایک ایسے نظام کی نمائندگی کرتا تھا جو اسلامی اصولوں، عدل، مساوات اور تقویٰ سے یکسر متصادم تھا۔
یزیدیت درحقیقت اسلام کی روح سے انحراف، قبائلی عصبیت اور شخصی آمریت کا استعارہ بن چکی تھی۔ امام حسینؑ کا قیام محض اپنے لیے اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں تھا، بلکہ پوری امت کے لیے اس اصلاحی نظام کو بحال کرنے کے لیے تھا جو رسول اللہ ﷺ نے قائم کیا تھا، جہاں ہر فرد کی عزت محفوظ ہو، انصاف سب کا حق ہو اور اخوت و مساوات کی بنیاد پر معاشرہ استوار ہو۔ آپ نے اپنے خطبوں اور خطوط میں بارہا مسلمانوں کو ان کے فرائض یاد دلائے، انہیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی تلقین کی اور باہمی تفرقہ بازی سے دور رہ کر اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔
آپ کی دعوت کا مرکز یہی تھا کہ مسلمان اپنی بنیادی قدریں نہ بھولیں، اپنے آپ کو تفرقوں میں نہ تقسیم کریں اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں۔ کربلا کا سانحہ درحقیقت اس وقت کے مسلم معاشرے میں پھیلے ہوئے گہرے تفرقے، بے حسی اور اخلاقی پستی کا المناک نتیجہ تھا۔ اگر امت وقت پر اپنے فرض سے آگاہ ہوتی اور امام حسینؑ کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتی، تو شاید تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا۔ لہٰذا، شہادتِ حسین ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امت کی بقا اور عظمت صرف اتحاد، باہمی اخوت اور اجتماعی بھلائی کے لیے کھڑے ہونے میں ہے۔
آج کے دور میں، جب عالم اسلام شدید انتشار، اندرونی تنازعات، فرقہ وارانہ کشیدگی اور بیرونی مداخلت کا شکار ہے، فلسفہ کربلا اور شہادتِ حسین کی یہ پکار پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا تقاضا آج محض ایک اخلاقی درس نہیں، بلکہ مسلم امہ کے وجود اور وقار کے تحفظ کی بنیادی شرط بن چکا ہے۔ امام حسینؑ نے جو اصولوں کی جنگ لڑی، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے باہمی اختلافات کو، چاہے وہ فقہی ہوں یا کلامی، باہمی احترام اور رواداری کے دائرے میں رکھیں۔ فرقہ وارانہ تعصب، تکفیر اور تشدد کی راہ اختیار کرنا نہ صرف فلسفہ کربلا کے منافی ہے، بلکہ وہی باطل قوتیں ہیں جن کے خلاف امامؑ نے علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی خاص گروہ یا فرقے کے لیے نہیں تھی، بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔ لہٰذا، تمام مسالک کے ماننے والوں کو اپنے مشترکہ دشمن۔۔ جہالت، غربت، استحصال اور بیرونی تسلط کو پہچاننے اور اسکے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا، ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کرنا اور مشترکہ مسائل پر مل کر کام کرنا ہی وہ حقیقی " قرینہ ہے جس کی بنیاد رسول اللہ ﷺنے رکھی تھی اور جسے بحال کرنے کے لیے امام حسینؑ نے اپنا لہو بہایا۔ واقعہء کربلا ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ امت کا شیرازہ صرف محبت، اخوت اور باہمی تعاون سے ہی بندھا رہ سکتا ہے۔
فلسفہ کربلا کی وسعت اور گہرائی صرف مسلمانوں کے داخلی اتحاد تک ہی محدود نہیں۔ امام حسینؑ کی قربانی اور آپ کا پیغام ایک عالمگیر انسانی پیغام ہے جو تمام مذاہب، نسلوں اور ثقافتوں کے انسانوں کو مخاطب کرتا ہے۔ آپ نے انسانی وقار، انصاف، آزادی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے جو مثال قائم کی، وہ کسی بھی مذہبی یا نسلی وابستگی سے بالاتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے دانشور، مصلح اور حریت پسند، خواہ وہ کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، امام حسینؑ کے کردار اور قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس تناظر میں، بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت فلسفہء کربلا سے براہِ راست اخذ کی جا سکتی ہے۔ امام حسینؑ کی جدوجہد کا بنیادی ہدف ظلم، جبر اور انسانی حقوق کی پامالی تھی، ایسے مسائل جو تمام انسانیت کے مشترکہ دشمن ہیں۔ آج کے گلوبل ویلیج میں، جہاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ قریب قریب رہتے ہیں، کربلا کا پیغام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اختلافات کو تنازعات کا باعث بنانے کے بجائے، انسانی مشترکات۔۔
محبت، رحم، انصاف کی خواہش، ظلم سے نفرت کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ، تعاون اور احترام کی فضا قائم کرنی چاہیے۔ ہم آہنگی کا مطلب اپنے عقائد سے سمجھوتہ کرنا نہیں، بلکہ دوسروں کے عقائد اور مقدسات کا احترام کرنا، مشترکہ انسانی بھلائی کے لیے مل کر کام کرنا اور ظلم و ناانصافی کے خلاف متحدہ محاذ بنانا ہے۔ جس طرح امام حسینؑ نے اپنے ساتھیوں میں مختلف پس منظر کے لوگوں کو شامل کیا، اسی طرح آج بھی تمام مذاہب کے رہنماؤں اور پیروکاروں کو انسانی فلاح، امن اور عدل کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
نتیجتاً، فلسفہ کربلا اور شہادت امام حسینؑ کا پیغام کوئی جامد تاریخی قصہ نہیں، بلکہ ایک زندہ، متحرک اور عالمگیر رہنما اصول ہے۔ یہ ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر اور پھر اپنے معاشرے میں حق گوئی، عدل پرستی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسرا، یہ مسلم امہ کو باہمی تفرقہ بازی، تنگ نظری اور فرقہ وارانہ تعصب سے بالاتر ہو کر اپنی بنیادی قدرِ اخوت اور اتحاد کو مضبوطی سے تھامنے پر زور دیتا ہے۔ اتحاد بین المسلمین صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ امت کی بقا اور ترقی کی بنیادی شرط ہے۔
تیسرا اور سب سے اہم، یہ فلسفہ ہمیں انسانیت کے ایک وسیع تر دائرے میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے، جہاں تمام مذاہب اور ثقافتوں کے انسان انصاف، امن اور باہمی احترام کی مشترکہ بنیادوں پر مل جل کر رہیں اور دنیا سے ظلم و جبر کا خاتمہ کریں۔ شہادتِ حسینی محض ماتم اور غم کا استعارہ نہیں، بلکہ یہ ایک تحریکِ حیات ہے، ایک منشورِ عمل ہے جو ہر فرد، ہر قوم اور پوری انسانیت کو ظلمت سے نور، باطل سے حق اور تفرقہ سے اتحاد کی طرف سفر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ امام حسینؑ نے اپنا لہو بہا کر ہمیں یہی پیغام دیا۔
"کہ اللہ کی راہ مں سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے جھک نہیں سکتا"۔ یہی کربلا کا لازوال پیغام ہے، جس پر عمل پیرا ہونا ہر دور کی ضرورت رہے گی۔