مسلمانوں کا ماضی ایک ایسا تابناک باب ہے جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب بغداد، قرطبہ، سمرقند، بخارا اور دمشق علم و حکمت، عدل و مساوات اور تہذیب و تمدن کے مراکز تھے۔ دنیا بھر کے دانشور اسلامی ریاستوں سے روشنی حاصل کرتے، مسلمان سائنس، طب، فلکیات، فلسفہ اور فن تعمیر میں رہنمائی کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک طویل سازشی سلسلے نے مسلمانوں کی وحدت کو توڑ ڈالا۔ استعمار نے قومیت، فرقہ واریت، زبان، نسل اور جغرافیہ کی بنیاد پر امت مسلمہ کو تقسیم کرکے ان کے درمیان نفرت، عدم اعتماد اور باہمی دشمنی کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ اس زوال کی ایک بڑی علامت بنا، جس کے بعد مسلم ریاستیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئیں اور ہر ایک اپنی بقا کی جنگ میں اکیلا رہ گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا نے اپنا رویہ بھی تبدیل کر لیا۔ وہ قوم جو کبھی رہنمائی کرتی تھی، اب خود رہنمائی کی محتاج بن گئی۔ ایک طرف وہ اقوام تھیں جن کا خون اگر گرے تو عالمی سطح پر بحران قرار پاتا ہے اور دوسری طرف ہم مسلمان، جن کے لاشے گرتے ہیں تو دنیا صرف افسوس کا اظہار کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہمارا خون اب پانی سے بھی سستا ہو چکا ہے اور تمھارا خون گلاب بن کر دنیا کی آنکھ کا تارا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جو آج مسلم امہ کی اجتماعی حالت کو بیان کرتا ہے۔
آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہے۔ غزہ کی پٹی روزانہ اسرائیلی بمباری کی زد میں آتی ہے۔ بچوں کی لاشیں ملبے سے نکالی جاتی ہیں، ماؤں کی آہیں آسمان تک پہنچتی ہیں، بزرگوں کی آنکھوں میں آنسو جم جاتے ہیں، لیکن دنیا خاموش ہے۔ اقوام متحدہ قراردادیں تو منظور کرتی ہے، لیکن ان پر عمل درآمد کروانے کی قوت اس کے پاس نہیں، یا شاید ارادہ ہی نہیں۔ عالمی میڈیا کسی بھی غیر مسلم ملک میں ایک واقعہ ہو جائے تو گھنٹوں کی براہ راست کوریج کرتا ہے، لیکن فلسطین میں ہونے والے قتلِ عام کو چند سیکنڈ کی خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
شام میں ایک پوری نسل خانہ جنگی کی نذر ہو چکی ہے۔ دارالحکومت دمشق اور شہر حلب سے لے کر ادلب تک، ہر طرف ملبے، لاشیں اور تباہ حال عمارتیں ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت، بیرونی مداخلت اور مختلف گروہوں کی خانہ جنگی نے ملک کو ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ چند لمحوں کا رہ گیا ہے۔ لاکھوں لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے، لاکھوں مہاجر کیمپوں میں بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی کوئی عالمی کانفرنس، کوئی انسانی ہمدردی کی تحریک سامنے نہیں آتی۔ کیوں؟ کیونکہ مرنے والے مسلمان ہیں۔
یمن کا حال بھی مختلف نہیں۔ دنیا کا بدترین انسانی بحران اسی ملک میں جاری ہے، جہاں قحط، بھوک، بیماری اور بمباری روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بچوں کی ہڈیاں نمایاں ہو چکی ہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کو مرتے دیکھنے پر مجبور ہیں اور دوائیں ناپید ہیں۔ مگر مغربی دنیا کی غیرت اس وقت جاگتی ہے جب ان کے تجارتی یا فوجی مفادات کو ٹھیس پہنچے، نہ کہ کسی مسلمان کے مرنے سے۔
برصغیر میں مسلمانوں کو درپیش حالات بھی کچھ کم اذیت ناک نہیں۔ بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جا رہا ہے وہ کسی بھی مہذب سماج کے لیے باعثِ شرم ہے۔ کبھی گائے کے نام پر قتل، کبھی حجاب پر پابندی، کبھی یکساں سول کوڈ کے نام پر اسلامی قوانین کی تضحیک اور کبھی مساجد کی بے حرمتی یہ سب کچھ بھارت کی جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، وہاں کی ہر آواز کو بندوق کی نوک پر دبایا جا رہا ہے، لیکن دنیا اسے بھارت کا اندرونی معاملہ کہہ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
چین میں ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک الگ داستان ہے۔ مذہبی آزادی سلب کی جا چکی ہے، قرآن پڑھنا، روزہ رکھنا، مسجد جانا، سب جرائم بن چکے ہیں۔ ایغور مسلمانوں کو جبری حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کی ثقافت، مذہب اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ چین ایک عالمی طاقت ہے، اس لیے اس کے خلاف زبان کھولنا عالمی میڈیا اور اداروں کے لیے ممکن نہیں۔
برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ نسل کشی سے کم نہ تھا۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی، عورتوں کی عصمت دری کی گئی، بچوں کو ذبح کیا گیا اور لاکھوں افراد کو در بدر کر دیا گیا۔ دنیا کے ضمیر کو ان کے زخموں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ آج بھی بنگلہ دیش، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے ساحلوں پر بے یار و مددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان تمام مظالم کے باوجود، مسلم حکمران خاموش ہیں۔ OIC جیسی تنظیمیں صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود ہو چکی ہیں۔ کسی ملک نے آج تک ظلم کے خلاف کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ معاشی طاقت رکھنے والے اسلامی ممالک بھی مظلوموں کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ وہ دشمنوں سے دوستی، معاہدے اور تجارتی تعلقات استوار کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلامی اخوت، دینی غیرت اور انسانی ہمدردی کے تقاضے صرف تقریروں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں۔
آج کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ ہم کمزور ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی کمزوری کو تقدیر سمجھ لیا ہے۔ ہماری بے حسی نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے کہ ہم ظلم پر صرف آہیں بھرتے ہیں، احتجاج کے دو نعرے لگاتے ہیں اور پھر اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ہماری دینی تعلیمات ہمیں ظالم کے ہاتھ کو روکنے کا حکم دیتی ہیں، لیکن ہم نے ان تعلیمات کو صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود کر دیا ہے۔ ہمارا دینی فریضہ صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں، بلکہ مظلوم کی داد رسی، انصاف کی بحالی اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا بھی عین دین ہے۔
ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ دنیا مفادات کی بنیاد پر چلتی ہے۔ اگر ہم صرف مظلوم بن کر رہیں گے تو ہمیں کبھی عزت نہیں ملے گی۔ عزت، طاقت سے جڑی ہے اور طاقت علم، معیشت، اتحاد اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ ہمیں عالمی طاقتوں کی منافقت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں، لیکن مسلمانوں کے حقوق کی بات آئے تو بہانے تراشنے لگتی ہیں۔ وہ مسلم ممالک جو تیل، گیس، معدنیات، تجارت اور افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، اگر متحد ہو جائیں تو دنیا ان کے فیصلوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
آج ہمیں اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل کو کیا دکھایا جا رہا ہے؟ کیا ہماری نسلوں کو اسلام کی اصل روح، اس کی عالمی قیادت کی تاریخ اور اس کی فکری بلندیوں سے روشناس کرایا جا رہا ہے؟ افسوس کہ ہم نے اپنی تاریخ فراموش کر دی، اپنے ہیروز کو بھلا دیا اور ان کی جگہ ایسے کرداروں کو آئیڈیل بنا لیا جو ہماری تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک ہم اپنی نسلوں کو بیدار نہیں کریں گے، ان کے اندر غیرت، حمیت اور اسلامی شعور پیدا نہیں کریں گے، تب تک ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔
موجودہ دور کا سب سے مؤثر ہتھیار میڈیا ہے۔ عالمی بیانیے اسی کے ذریعے طے پاتے ہیں۔ مگر مسلم دنیا میں میڈیا یا تو ریاستی بیانیے کے تابع ہے، یا سطحی تفریح، فیشن اور بے مقصد مباحثوں میں الجھا ہوا ہے۔ ہمیں سنجیدہ، تحقیق پر مبنی اور عالمی معیار کا میڈیا نیٹ ورک قائم کرنا ہوگا جو نہ صرف مسلمانوں کی آواز دنیا تک پہنچائے بلکہ دنیا کی گمراہ کن پروپیگنڈا مشینری کا علمی اور سچ پر مبنی جواب دے سکے۔
اسی طرح تعلیمی ادارے بھی کسی قوم کی فکری بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں صرف مغربی نصاب کو رٹایا نہ جائے، بلکہ اسلامی تاریخ، اسلامی فلسفہ، سیرتِ رسول ﷺ اور سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی دی جائے۔ ہمیں ایسے نوجوان تیار کرنے ہوں گے جو بیک وقت مؤمن بھی ہوں اور ماہر بھی، جو قرآن و سنت کو بھی جانتے ہوں اور مصنوعی ذہانت و کوانٹم فزکس کو بھی۔
ہماری معیشت کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مسلم ممالک دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن اندرونی کرپشن، ناقص منصوبہ بندی اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار نے ہمیں مقروض اور محکوم بنا دیا ہے۔ ہمیں ایسے ماہرینِ معیشت، ایسی اسلامی بینکاری اور ایسے مالیاتی نظام کی ضرورت ہے جو نہ صرف اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں بلکہ جدید دنیا کی ضرورتوں سے ہم آہنگ بھی ہوں۔
عالمی سفارت کاری بھی وہ میدان ہے جہاں ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے سفیروں کو صرف رسمی ملاقاتوں، تقریبات اور روایتی بیانات سے نکل کر دنیا کے سامنے ایک مضبوط موقف اور دلیل کے ساتھ آنا ہوگا۔ دنیا کو یہ باور کروانا ہوگا کہ مسلمان ایک زندہ قوم ہیں، ان کے مسائل دنیا کے مسائل ہیں اور ان کے حقوق پر خاموشی، دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ دنیا کے تمام مظالم صرف بندوق سے نہیں روکے جا سکتے۔ بعض اوقات ایک مؤثر قلم، ایک مدلل تقریر، ایک واضح بیانیہ اور ایک مضبوط سفارتی پالیسی دشمن کی توپوں سے زیادہ کاری ضرب لگاتی ہے۔ ہمیں اپنے اہلِ قلم، اہلِ فکر، دانشوروں، مصنفین اور اساتذہ کو متحرک کرنا ہوگا کہ وہ امت کی فکری رہنمائی کریں۔
آخر میں، ہمیں اپنے دلوں میں یہ بات بھی راسخ کر لینی چاہیے کہ زوال ابدی نہیں ہوتا، بشرطیکہ اس کے اسباب کو پہچان لیا جائے اور ان کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم نے اپنے رویے بدل لیے، اگر ہم نے دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی شناخت دوبارہ پانے کی جدوجہد کی، اگر ہم نے مظلوموں کا ساتھ دینا اپنا فریضہ سمجھا اور اگر ہم نے علم، اتحاد، خودداری، اخلاق اور اخلاص کو اپنا شعار بنا لیا، تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمیں صرف تعداد کے لحاظ سے نہیں، بلکہ کردار، علم اور قیادت کے لحاظ سے بھی تسلیم کرے گی۔
ہمارا خون پانی جیسا نہیں، یہ بھی قیمتی ہے۔ مگر دنیا تب مانے گی جب ہم خود اپنی قدر کریں گے۔ تب دنیا بھی مانے گی کہ پانی جیسا ہے تمھارا خون اور ہمارا خون ہے گلاب۔