Wednesday, 13 August 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Asr e Hazier Mein Bain Ul Mazahib Hum Ahangi Aur Islam Ka Kirdar

    Asr e Hazier Mein Bain Ul Mazahib Hum Ahangi Aur Islam Ka Kirdar

    عصر حاضر میں جب دنیا تہذیبی تصادم، ثقافتی تضادات اور مذہبی انتہاپسندی کے عروج کا سامنا کر رہی ہے، وہاں مذاہب کے مابین ہم آہنگی اور مکالمہ محض فکری عیاشی نہیں بلکہ بقائے باہمی کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ عالمگیریت نے جہاں دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے، وہیں مذہبی و ثقافتی تنوع کو برقرار رکھتے ہوئے باہمی احترام اور تعاون کے اصولوں کو فروغ دینا بھی ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے میں اسلام جیسے دینِ رحمت اور الہامی و دیگر غیر الہامی مذاہب کے مابین ان مشترکہ اخلاقی و روحانی اقدار کو تلاش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جو عالمی امن کے فروغ میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

    اسلام اپنی اصل میں ایک آفاقی پیغام رکھتا ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت، عدل، رحمت اور سکون کا منبع ہے۔ قرآن مجید میں جہاں مسلمانوں کو اپنے عقائد پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی ہے، وہیں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ حسن سلوک، نرمی اور انصاف کا رویہ اپنانے کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔ اسلام نے ہر اس مذہب و مکتبِ فکرکے ساتھ مکالمہ کی اجازت دی ہے جو انسانی فطرت، اخلاقیات اور معاشرتی فلاح کی بات کرتا ہو۔

    اسلام اور دیگر الہامی مذاہب جیسے یہودیت اور عیسائیت میں کئی ایسی بنیادی اقدار مشترک ہیں جو ان کے الہامی ماخذ، اخلاقی تعلیمات اور انسانی فلاح کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ ان مذاہب کا ماخذ وحی ہے اور ان سب کی دعوت کا مرکز توحید، نیکی، عدل، رحم اور اخلاص ہے۔ تمام الہامی مذاہب خالقِ کائنات پر ایمان، انبیاء کی تعلیمات کی پیروی، آسمانی کتابوں کی صداقت اور یومِ آخرت پر یقین کی تلقین کرتے ہیں۔ اخلاقی سطح پر سچائی، انصاف، والدین کی خدمت، پڑوسیوں کے حقوق، محتاجوں کی مدد اور ظلم سے اجتناب جیسی اقدار میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔

    یہ مذاہب عبادات کو بھی انسان کی روحانی تطہیر اور معاشرتی ہم آہنگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، مثلاً روزہ، دعا، صدقہ اور قربانی جیسی عبادات سب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ مزید برآں، انسان کو خلیفہ یا ذمہ دار مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس پر دنیا میں عدل، امن اور اصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان تمام مشترکہ تعلیمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الہامی مذاہب کا مقصد انسان کو انفرادی و اجتماعی فلاح، روحانی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی کی طرف رہنمائی دینا ہے۔ ان قدروں کی بنیاد پر بین المذاہب مکالمے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ممکن ہے۔

    غیر الہامی مذاہب، جن کی بنیاد کسی وحی یا نبی پر نہیں بلکہ انسانی تجربات، مشاہدات اور روحانی سچائیوں پر قائم ہے، ان میں بھی ایسی متعدد قدریں پائی جاتی ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ ان مذاہب میں بدھ مت، جین مت، تاؤ مت اور کنفیوشس مت خاص طور پر نمایاں ہیں۔ بدھ مت مہاتما گوتم بدھ کی تعلیمات پر مبنی ہے، جو دُکھ سے نجات، نفس کی تطہیر اور آٹھ گناہ راستہ اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ جین مت میں اہنسا، یعنی ہر قسم کے تشدد سے اجتناب کو سب سے اعلیٰ مذہبی عمل مانا جاتا ہے۔ تاؤ مت کائناتی توازن، سادگی اور قدرت سے ہم آہنگی کی تلقین کرتا ہے جبکہ کنفیوشس مت معاشرتی اخلاقیات، عدل، فیملی سسٹم اور انسان دوستی پر زور دیتا ہے۔

    اسلامی تعلیمات میں یہ تمام عناصر نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی جزئیات تک تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں انسانوں سے حسنِ سلوک، معافی، تحمل، عدل، سچائی اور خدمتِ خلق کو بنیادی اسلامی اقدار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جسے دنیا میں "سنہری اصول" (Golden Rule) کے طور پر جانا جاتا ہے اور تقریباً تمام مذہبی و فلسفیانہ نظام ہائے فکر میں مشترک حیثیت رکھتا ہے۔

    بدھ مت میں یہی اصول یوں بیان ہوا ہے کہ "اپنے پڑوسی کے ساتھ وہی سلوک کرو جو تم اپنے لیے چاہتے ہو"۔ کنفیوشس مت میں بھی یہی نکتہ موجود ہے کہ "دوسروں کے ساتھ وہی برتاؤ کرو جو تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ کریں"۔ یہ اخلاقی ہم آہنگی نہ صرف فکری مماثلت کی دلیل ہے بلکہ اس بات کی غمازی بھی ہے کہ مذاہب کے درمیان ایک اخلاقی اتحاد ممکن ہے جس کی بنیاد رحم، انصاف اور احترام پر ہو۔

    عدم تشدد، جو کہ جین مت کی اساس ہے، اسلامی تعلیمات کا بھی جزوِ لاینفک ہے۔ نبی کریم ﷺ کو "رحمۃ للعالمین" کا لقب دیا گیا، جنہوں نے جنگوں میں بھی اخلاقی اصولوں کی پیروی کی اور دشمنوں پر بھی ظلم کرنے سے منع فرمایا۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا کہ جو شخص ایک جان کو ناحق قتل کرے وہ گویا تمام انسانیت کو قتل کرتا ہے۔ بدھ مت میں قتل، جھوٹ، چوری اور جنسی بے راہ روی سے اجتناب کو اخلاقی زندگی کا مرکز قرار دیا گیا ہے، جو اسلامی اخلاقیات سے ہم آہنگ ہے۔

    خدمتِ خلق کا تصور بھی دونوں میں مشترک ہے۔ بدھ مت اور تاؤ مت کے پیروکار آج بھی فری کلینکس، ٹیمپل اسکولز اور رفاہی کچن کے ذریعے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اسلام میں زکٰوۃ، صدقہ، وقف، فطرانہ اور دیگر فلاحی ذرائع کے ذریعے خدمتِ خلق کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو"۔

    روحانیت کے ضمن میں، غیر الہامی مذاہب میں "مراقبہ" اور "دھیان" کے ذریعے قلبی سکون اور روحانی پاکیزگی حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ تاؤ مت اور بدھ مت میں نروان، یا دائو، کی حالت حاصل کرنا روحانی ارتقاء کی معراج تصور کی جاتی ہے۔ اسلامی تصوف میں بھی ذکر، فکر، توکل، صبر اور قناعت کے ذریعے باطنی طہارت حاصل کرنے کا مفصل نظام موجود ہے۔

    نبی کریم ﷺ کا طرزِ عمل دیگر مذاہب کے ساتھ نہایت مثالی رہا۔ اہلِ نجران کے وفد کو مسجدِ نبوی میں عبادت کی اجازت دینا، یہود کے ساتھ معاہدہِ مدینہ کی رو سے انہیں مکمل شہری حقوق دینا اور نجران، یمامہ، نجران اور حبشہ کے نصاریٰ و یہود کے ساتھ نرم سلوک کرنا بین المذاہب ہم آہنگی کی روشن مثالیں ہیں۔ یہاں تک کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو غیر مسلم اقلیتوں پر ظلم کرے گا وہ قیامت کے دن میرے دشمنوں میں سے ہوگا۔

    اسلامی فقہاء، جیسے امام قرطبی، نے یہ واضح کیا کہ اسلام نے عالمی سطح پر ایک اخلاقی ضابطہ پیش کیا ہے جس میں تمام اقوام کے ساتھ احترام و انصاف کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہی رویہ غیر الہامی مذاہب کے ساتھ بھی اپنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہم مذہبی تعصب، جہالت اور مفاد پرستی سے بالا ہو کر انسانیت کی بھلائی پر توجہ دیں۔

    موجودہ حالات میں، جب دنیا ایک طرف دہشتگردی، جنگ، نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کا شکار ہے تو دوسری طرف ان ہی بحرانوں کا حل بھی مذہبی مکالمے، اخلاقی اتحاد اور بین المذاہب تعاون میں موجود ہے۔ تعلیمی اداروں میں مختلف مذاہب کی درست اور غیر جانبدارانہ تعلیم دینا، میڈیا پر مثبت اور معتدل بین المذاہب مواد کو فروغ دینا اور قومی و بین الاقوامی سطح پر ایسے فورمز تشکیل دینا جو مذہبی و فکری ہم آہنگی کی بنیاد بن سکیں، یہ سب وقت کی اہم ترین ضرورتیں ہیں۔

    بین المذاہب مکالمہ صرف مذہبی تقابل یا عقائد کی برتری کے بیان تک محدود نہ ہو بلکہ مشترکہ انسانی مسائل جیسے غربت، ماحولیاتی آلودگی، اخلاقی زوال اور امن و امان جیسے معاملات پر مشترکہ عملی تعاون کی صورت اختیار کرے۔ اسلام نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: "اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو"۔

    قرآن مجید نے جہاں بنی آدم کو عزت و شرف عطا کرنے کا اعلان کیا ہے، وہاں یہ بھی واضح کر دیا کہ انسانی عظمت مذہب و رنگ سے بالاتر ہے۔ "ہم نے بنی آدم کو عزت دی" (الاسراء: 70)۔

    یہ آفاقی پیغام انسانیت کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں تمام مذاہب، چاہے الہامی ہوں یا غیر الہامی، اخلاق، عدل، امن اور احترام کے اصولوں پر متحد ہو سکتے ہیں۔

    یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم خلوصِ نیت سے ان مشترکہ قدروں پر عمل پیرا ہو جائیں اور باہم مکالمہ، تعاون اور فہم و ادراک کو فروغ دیں تو ایک پرامن، منصفانہ اور مہذب عالمی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ الہامی و غیر الہامی مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ حسنِ سلوک، افہام و تفہیم اور مشترکہ مقاصد کے لیے تعاون ہی اسلام کی اصل روح اور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا عکس ہے۔