Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Asim Khan/
  3. Zakir Naik Aur Taliban

Zakir Naik Aur Taliban

ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب جو کہ ایک انڈین شہری اور پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے مطابق وہ افریقہ کے ایک بزرگ عالم دین اور پاکستان کے بزرگ و معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی بقیہ زندگی اللہ کے دین کے لیے وقف کر دی۔ اللہ کی بے پناہ عطاء کردہ خوبیوں کے حامل اس شخص کو اللہ نے ایسا علم اور عزت عطا فرمائی کہ لاکھوں لوگوں کی تعداد سے بھرے مجمعے ڈاکٹر صاحب کے علم سے فیض یاب ہوۓ ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم انہی دینی مجلسوں و مجمعوں میں اسلام کی دولت سے روشناس ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے ان پروقار دینی مجمعوں میں خاص کر غیر مسلموں کے لیے سوال و جواب کا ایک(segment)رکھا جاتا ہے تاکہ اسلام کے بارے میں جو بھی ان غیر مسلموں کے شکوک و شبہات ہو انہیں دور کیا جاسکے ایسا ہی ایک(segment) جس میں سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا ایک غیر مسلم نے ڈاکٹر صاحب سے طالبان کے حوالے سے سوال پوچھا کہ آپ طالبان کےبارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اس غیر مسلم کے پوچھے گیےسوال کے جواب میں بتاتے ہیں کہ میں ذاتی طور پر طالبان کو نہیں جانتا اور نہ ہی کبھی افغانستان گیا ہوں مگر جون ریڈلی جو کہ ایک یورپین صحافی اور رپورٹر ہیں جون ریڈلی کے مطابق اسے افغانستان میں طالبان کی تحقیقات کے لئے بھیجا گیا تھا اور وہ افغانستان میں اپنے انٹرویوز اور رپورٹز کی ریکارڈنگ کے دوران مکمل حجاب اور نقاب کا استعمال کرتی تھی ایک دن ایک انٹرویو اور رپورٹ ریکارڈنگ کے دوران اس کا کیمرا گر گیا اسی کیمرے کو اٹھانے کے دوران اس کا نقاب چہرے سے اترگیا جس کے باعث طالبان کے سامنے اس کی حقیقت ظاہر ہوگئی اور طالبان نے اسے اس کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا اور تحقیقات شروع کردی۔

جون ریڈلی اپنے ایک انٹرویو میں بتاتی ہے کہ طالبان کا ایک گروہ اس کے اردگرد جمع ہوگیا جس کی وجہ سے وه اس قدر خوف زدہ اور حواس باختہ ہوگیی کہ اسے اپنی موت اور اپنے ساتھ زیادتی نظر آنے کا خدشہ ہونے لگا اسے یقین ہو گیا کہ پہلے یہ سب لوگ ایک ایک کر کے اسے زیادتی کا نشانہ بنائیں گے اور پھر اس کے بعد اسے کسی چوراہے پر لٹکا کر موت کےگھاٹ اتار دیا جائےگا۔

اسی کشمکش اور ذہنی اذیت میں ایک گھنٹے کا وقت گزر گیا اور پھر ایک افغان عورت نمودار ہوئی جسے اس کے جسم کی تلاشی کے لئے بلایا گیا تھا کہ کہیں اس کے جسم کے کسی حصے پر کوئی اسلحہ وغیرہ تو نہیں بندہ ہوا ہے یہ دیکھ کر اسے سخت کوفت اور غصہ آیا کیونکہ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ جس ذہنی اذیت سے گزر رہی تھی اس کی وجہ صرف یہ عورت تھی جسے فقط اس کے جسم کو ٹٹولنے کے لئے بلایا گیا تھا اس سارے واقعہ کوسمجھنے کے بعد اس نے غصے کی حالت میں اپنے جسم سے اسکٹ اوپر اٹھا لی تاکہ سامنے کھڑے لوگوں کو پتہ چل سکے کہ اس کے جسم پر کسی قسم کا کوئی اسلحہ بندہ ہوا نہیں ہے۔

وہ بتاتی ہے کہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے طالبان 180 ڈگری کے اینکل کے حساب سے دوسری طرف مڑ گئے جون ریڈ لی کہتی ہے اگر آپ لوگوں نے طالبان کو ختم کرنا ہے تو اپ لوگوں کو نا تو کسی بم نا کسی توپ اور نا ہی کسی ٹینک کی ضرورت پڑے گی بس اپ لوگ طالبان کے سامنے صرف بے لباس عورتوں کو پیش کردوں وہ خود بخود بھاگ جائیں گے۔

اسی انٹرویو کے دوران جب اس کے ساتھی رپورٹرز نے سوال کیا کہ اپ کے ساتھ طالبان کا رویہ اور سلوک کیسا تھا اس نے جواب میں کہا 6دنوں کی مختصر طالبان قید میں جس قدر خوبصورت حسن سلوک میں نے دیکھا اس کو کسی رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ بس اس 6دنوں کی مختصر قید سے جب طالبان کی جانب سے مجھے رہا کیا گیا تو صرف مجھ سے ایک وعدہ لیا گیا کہ اپنے وطن لوٹنے کے بعد قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھوں جو طالبان کی جانب سے مجھے تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔

جون ریڈلی نے قرآن پاک کو پڑھنے کے بعد نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ مستقل اور باقاعدہ طور پر پردے کا اہتمام بھی کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کہتے ہیں میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے اور عالمی میڈیا طالبان کے حوالے سے اسی فارمولے کو استعمال کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مزید کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز جب اپ تک پہنچے تو غلط یا صحیح قرار دینے سے پہلے اس کی تحقیقات ضرور کرلینی چاہیے۔