Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Asim Khan/
  3. Jo Khwab Ban Kar Reh Gaya

Jo Khwab Ban Kar Reh Gaya

یہ وقت کا پرندہ بھی اپنے پروں کو پھیلائے نہ جانے کون سی رفتار سے اڑ رہا ہے، کہ جس جگہ جس ماحول اور جن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، جاگنا سونا اور کھانا پینا ہوا کرتا تھا۔ وہ سب نیند میں سوئے ہوئے کسی بھولے بسرے خواب کی شکل اختیار کر چکا۔

وه گاؤں کی صاف ستھری چڑیوں سے چہچہاتی صبح، وہ دیسی ڈھوڈی ساگ لسی پیاز چٹنی اور کچے مکانوں کی چھت میں لگے پنکھے کے نیچے میٹھی نیند والی دوپہر، وہ چائے کی چنجوشی والی سپہر، وه ہرے بھرے سرسبز لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں ڈھلتے سورج کی مغرب، وہ کھلے آسمان کے نیچے پنکھے کے آس پاس بچھی چارپائیوں والی رات، بس یہ سب دماغ کے کسی حصے میں ایک خواب بن کر ہی رہ گیا۔

جو کبھی کسی پرانی تصویر کو دیکھ کر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، گرمیوں میں سکول کی چھٹیوں کی صبح سویرے ہم سب کزن بھینس گائے اور بکریوں کے ایک بڑے سے ریوڑ کو چرانے گھر سے تھوڑے دور فاصلے پر لے جاتے ساتھ اسکول کی کوئی کتاب بھی ہاتھ میں ہوتی جو پڑھنے سے زیادہ دکھانے کے لئے ہوتی۔

جانوروں کو چرانے کا یہ دورانیہ تین سے چار گھنٹے پر مشتمل ہوتا۔ جس میں بھرپور مستی ہوتی کبھی گلی ڈنڈا کھیلتے تو کبھی کرکٹ، کبھی فٹ بال کھیلتے تو کبھی کبڈی اس دوران جانوروں کا ایک جھنڈ کسی نہ کسی کے کھیت میں گھس کر اپنی کاروائی ضرور دکھاتا۔ جو کبھی کسی جانور کو کھیت کے مالک کی جانب سے قید کر لیا جاتا تو کبھی کھیت کا مالک غصے اور گلے کی شکل میں ہمارے گھروں تک پہنچ جاتا۔

گرمیوں کے سیزن میں گاؤں میں ہر طرف جوار کے سرسبز کھیت جھومتے ہوئے نظر آتے لوگ جب ڈھوڈی ساگ لسی چٹنی اور پیاز سے بھرپور کھانا نوش کرکے نیند کے مزے لے رہے ہوتے تو اس دوران کئی ٹولیاں جوار کے ان کھیتوں میں گھس کر کھیت کے مالک کی محنت پر خوب پانی پھیرتی اور ڈھیر سارے جوار کے سٹے توڑے جاتے۔

پھر چھپ کر کسی ایسی جگہ بھونے جاتے، جو جگہ نظروں سے اوجھل ہوتی اس ساری کارروائی کے بعد ٹھنڈے اور صاف ستھرے پانی میں نہایا جاتا کیونکہ اس زمانے میں ٹھنڈے اور صاف پانی کی بہار ہی بہار تھی۔ جبکہ پانی کے کنوئیں پانی سے لبریز تھے، پھر چپکے سے اپنی اپنی چارپائیوں پر براجمان ہوکر اس طریقے سے سویا جاتا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوتی۔

سائیکل کے لیے اگر کوئی بہترین دور تھا، تو وه وہی دور تھا، ہر گھر میں تین سے چار سائیکلیں موجود ہوتی کسی سائیکل کو سکول کیلئے استعمال کیا جاتا تو کوئی سائیکل گھر کے سودا سلف کی غرض سے استعمال ہوتی کوئی سائیکل گھر کے کسی بڑے کے نام سے منسوب ہوتی تو کوئی سائیکل گھر کے کسی چھوٹے کے نام درج ہوتی یعنی صبح صبح گاؤں سے بازار کی جانب ہر قسم کی سائیکلیں آپ کو نظر آتی۔

جو بوڑھے جوان اور بچے سواری کی غرض سے استعمال کرتے تھے۔ ایسا دور جو نفسا نفسی سے بلکل پاک تھا پیسوں کی کمی کے باوجود خوشحالی سکون اور محبت سے بھرپور تھا لوگوں کے گھر کچے تھے، لیکن من سچے تھے محبت کے پیکر تھے۔

سادگی اور سچائی کا بول بالا تھا دکھاوا دور دور تک کسی کے آس پاس بھی بھٹکنے کی کوشش نہ کرتا پھر وقت کا پرندہ اپنے پروں کو پھیلائے اڑتے اڑتے ہمیں ایک ایسے دور میں لے آیا جہاں زمانے کی ہر سہولت ہر آسائش اور ہر وہ چیز دستیاب ہے۔ جو انسان کی سکون کے لیے نہ صرف کافی ہے، بلکہ سہولت کے لحاظ سے اپنے عروج پر بھی ہے۔

ان تمام اشیاء سکونت کے اس دور میں بھی انسان ایسے بے سکون پریشان اور پیار و محبت سے خالی ہے۔ جیسے کسی حد درجہ غریب کی جیب پیسوں سے خالی ہوتی ہے۔ اس لئے میں آج برسوں پردیس میں رہ کر بھی وہ دور نہ بھلا سکا جو ماضی کی بھولی بسری داستان بن کر رہ گیا ہے۔

شاید یہ اس دور کی سادگی سچائی اور پیار و محبت ہی ہے۔ جو ہمیشہ اس دور کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے، کہ انسان ہر اس چیز کو یاد رکھتا ہے جو اسے پیار و محبت اور بے پناہ سکون مہیا کرتی ہے۔