Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asim Khan/
  3. Pakistan Atmi Taqat Kaise Bana

Pakistan Atmi Taqat Kaise Bana

1997میں بھارتی طاقت پاکستان سے کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ روایتی ہتھیار جن میں مشین گن، توپ اور ٹینک شامل تھے۔ بھارت لگاتار اضافہ کر رہا تھا اور یہ فرق بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ساتھ ہی بھارت نے میزائل ٹیکنالوجی سے بھی اپنے آپ کو لیس کرنا شروع کر دیا۔ اب پاکستان کو بھی غیر روایتی ہتھیاروں کی طرف آنا پڑا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان پہلے سے تیاری کر رہا تھا۔ لیکن بھارت کے ساتھ میزائل کی اس دوڑ میں دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔

1998شروع ہو چکا تھا اور بھارت میں دائیں بازو کی جماعت بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم بن چکے تھے بی جے پی ویسے بھی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سخت جذبات اور خیالات رکھتی تھی۔ اور اسی جماعت کے دور اقتدار میں بابری مسجد پر حملہ کیا گیا تھا، جو کہ دونوں ملکوں کے حالات میں مزید کشیدگی کی وجہ بنا، ان خراب حالات کے چلتے امریکا جو پہلے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر چکا تھا۔ اب بھارت کے ساتھ کہیں اربوں ڈالر کے معاہدے کر لیے تھے۔ اور قلیل مدت میں امریکی تجارت بھارت کے ساتھ دس ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

بھارت (Conventional Weapons) میں اپنی طاقت بڑھا رہا تھا اور بھارت کی روایتی ہتھیاروں کی جنگی طاقت پاکستان سے کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ (on the paper) بھارت کو فوجی اور ہتھیاروں کی طاقت میں واضح برتری حاصل ہو چکی تھی۔ اور اگر دو بدو جنگ ہوجاتی تو پاکستان کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو سکتا تھا۔ ساتھ ہی بھارت میزائل ٹیکنالوجی میں بھی تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اس وقت کے مطابق بھارت 350 کے رینج والے پرتھوی اور 2000 رینج والے اگنی میزائل کی تیاری کر رہا تھا۔ جبکہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لئے صرف شارٹ میزائل M11 موجود تھے۔ جن کی رینج صرف 350 کلومیٹر کی حد تک تھی۔

پاکستان بھی شارٹ اور لونگ رینج والے میزائل کی تیاری ایک عرصے سے کر رہا تھا۔ 1998 میں پاکستان نے غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ جس کی رینج 1500 سو کلومیٹر تک تھی۔ اس کامیاب تجربے کے بعد دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی پاکستان کی صلاحیت کو دیکھ لیا۔ بھارت کا %60فیصد حصہ اب پاکستان کی رینج میں تھا۔ اور اب کھلی جنگ میں پاکستان نے بھی واضح برتری حاصل کرلی۔ بی جے پی کی حکومت جو ویسے بھی پاکستان کے سخت خلاف تھیں انہیں یہ بات بالکل قابل قبول نہیں تھی۔ اور طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے انہوں نے ایٹمی دھماکوں کا منصوبہ بنایا۔ اور پاکستان کے میزائل تجربے سے انہیں دنیا کے سامنے جواز بھی مل گیا۔

11مئی 1998 کو وزیر اعظم پاکستان قازقستان کے دورے پر تھے جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ بھارت نے راجھستان کے شہر بکران میں 3 ایٹمی دھماکے کر دئیے ہیں۔ جو کہ ایک پریشان کن اطلاع تھی۔ پاکستان نے اپنے سائنس دانوں سے اس بارے میں مشاورت کی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جواب دیا کہ ہم پوری طرح ایٹمی دھماکوں کیلئے تیار ہیں۔

لیکن اسی دوران امریکا کی جانب سے ایک مہم چلائی گئی جس کا مقصد دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا تھا۔ اور اب پاکستان بھی دنیا کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا۔ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے سلسلے میں کچھ بڑی طاقتوں نے بھارت کی مذمت بھی کی اور پابندیاں بھی لگائی۔ کہ بھارت نے اس مہم کو نقصان پہنچایا ہے ایٹمی دھماکوں کی صورت میں اور اسی سلسلے میں بھارت سے اپنے سفیروں کو بھی واپس بلا لیا۔ اور مختلف قسم کے معاہدے بھی بھارت کے ساتھ توڑ دیے۔ لیکن یہ سب کچھ غبارے میں ہوا کی طرح ثابت ہوا۔

اور بھارت میں موجود امریکی سرمایہ کاروں نے امریکی حکومت کو خبردار کیا کہ بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے ختم کرنے سے خود امریکہ کو اس کا نقصان ہوگا۔ تو فلفور تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ اسی وجہ کے چلتے بھارت نے اگلے دو دن میں مزید دو دھماکے اور کردیے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے لئے حیران کن اور کافی مایوس تھا۔ ساتھ روس نے یہ اعلان بھی کر دیا اگر بھارت چاہے تو مزید چار دھماکے اور بھی کر سکتا ہے۔

ان تمام بڑے ممالک کی غیر سنجیدگی اور ڈرامے نے بھارتی حکومت کو شیر کر دیا اور واجپائی آب پاکستان کو ایٹمی جنگ کی دھمکیاں کھلم کھلا دینے لگا۔ دوسری طرف امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیراعظم کو فون کرکے دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس پر سخت قسم کی معاشی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ اور اس وقت امریکا پاکستان کا ایک بہت بڑا ایکسپورٹ پارٹنر بھی تھا۔

جب امریکا کو یہ یقین ہو گیا کہ اب پاکستان کو ایٹمی دھماکہ کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ تو امریکہ اور بھارت نے ایک آخری چال چلی، امریکا اور بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آج کے بعد کس ملک نے بھی ایٹمی دھماکے کئے تو اس پر عراق جیسی سخت معاشی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ ان پابندیوں کے مطابق باہر کے ممالک سے خوراک اور ادویات کے علاوہ نہ تو کچھ خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی کچھ بیچا جا سکتا تھا۔ اور اس طرح کی پابندیاں پاکستان پر لگ جاتی تو پھر پاکستان کبھی بھی ایٹمی دھماکے نہیں کر سکتا تھا۔

لیکن ہوا کچھ یوں کہ بھارت نے اسی دوران ایک بہت بڑی غلطی کر دی۔ بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی اب دھمکانے لگا تھا۔ کہ 1962 کی جنگ کے دوران چین نے جن جن بھارتی علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ اسے واپس کر دے ورنہ بھارت چین پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔ اب یہ چین پاک دوستی تھی یا پھر چین کا بھارت پر غصہ تھا۔ چین نے یہ اعلان کر دیا، اگر امریکہ اور بھارت نے سلامتی کونسل میں ایٹمی دھماکوں کے خلاف کسی بھی قسم کی قرارداد پیش کی تو چین اسے ویٹو کر دے گا اور چین کے اس فیصلے نے عالمی طاقتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔

لیکن اسی دوران ایک اور خبر نے ہلچل مچادی کہ اسرائیل پاکستانی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ اسرائیلی جرنل نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو بتایا کہ اسرائیل ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ بہرحال پاکستان اس وقت تک فیصلہ کر چکا تھا۔ ایک تو عالمی دباؤ تھا ایٹمی دھماکوں کے خلاف تو دوسری طرف اندرون ملک بھی سیاسی جماعتوں اور عوام کی طرف سے سخت دباؤ تھا دھماکوں کے حق میں کہ روکھی سوکھی کھائے گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔

سخت عالمی دباؤ کے پیش نظر پاکستان نے آخری مطالبہ کیا کہ اگر بھارت اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کردے تو پاکستان بھی ایٹمی دھماکوں کے پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ لیکن بھارت نے اس سے صاف انکار کردیا۔ اور پاکستان نے بھی چاغی کا علاقہ جو بیس سال پہلے ہی ایٹمی دھماکوں کے لیے منتخب کر رکھا تھا۔ امریکی سیٹلائٹ کو اس جگہ پر نقل و حمل کی کہ کچھ انفارمیشن موصول ہوئی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی جگہ تھی کہ انسانی جاسوسی کے وسائل ناممکن تھے سوائے امریکی سیٹلائٹ کے۔

اور اب پاکستان دھماکوں کے لیے مکمل طور پر تیار تھا لیکن دھماکوں کی صرف 4 دن پہلے ایک سنسنی خیز واقعہ رونما ہوا یہ ایسا واقعہ تھا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ 24 مئی 1998 کو تربت بلوچستان کے علاقے سے پی آئی اے کی ایک فلائٹ نے کراچی کے لیے اڑان بھری اور طیارہ راستے میں گوادر میں اترا اور مزید مسافروں کو لے کر جیسے ہی کراچی کیلئے روانہ ہوا تین مسلح افراد نے جہاز کو اغوا کرلیا اسلحہ کے زور پر اور طیارے کو بھارت جانے کے احکامات جاری کیے اور ممبئی ٹاور سے بھی رابطہ کیا۔ اور وہاں سے طیارے کو اترنے کی جگہ مہیا کر دی گئی۔

لیکن پاکستانی حکام ہرصورت طیارے کو بھارت جانے سے روکنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ایک دلچسپ منصوبہ بنایا اور پھر پاکستانی پائلٹ نے حیدر آباد کو بھارتی علاقہ بتا کر جہاز کو پاکستان ہی میں اتار لیا جہاں پہلے سے پاکستانی کمانڈوز بھارتی جھنڈے اور آرمی کی وردی پہنے کھڑے تھے۔ اور یہ دیکھ کر ہائی جیکرز نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔ انھوں نےاپنے دو مطالبے حکام کے سامنے رکھے۔ 1پاکستان ایٹمی دھماکوں سے دستبردار ہو جائے۔ 2 بلوچستان حکومت کے سارے فنڈز جاری کیے جائیں۔ اس پر حکام نے بچوں اور خواتین کو آزاد کر کے اور طیارے سے باہر آنے پر مذاکرات کی پیشکش کی۔

ہائی جیکرز حکام کا یہ مطالبہ مانتے ہوئے جیسے باہر آئے پاکستانی کمانڈوز نے انہیں دبوچ لیا۔ جو کہ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا وه تینوں مسلح افراد بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ تھے۔ جو ایک لاکھ روپے رشوت دے کر طیارے میں اسلحہ سمیت سوار ہوئے تھے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اور پاکستانی پائلٹوں کی ذہانت سے دشمن کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ اور اب پاکستان دوست ممالک چین اور سعودی عرب کو اعتماد میں لے کردنیا سے کہہ رہا تھا کہ روک سکو تو روک لو۔

28 مئی 1998 جمعرات کے روز فائٹر جیٹس کی نگرانی میں اور میزائلز کو مختلف بھارتی شہروں کو اہداف میں رکھ کر کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں 5 ایٹمی دھماکے نعرے تکبیر کے فلک شگاف نعروں کے سائے میں چاغی ون کے نام سے کردیے۔ چاغی ٹو 30 مئی کو ایک اور دھماکا کردیا۔ جو کہ بھارتی پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں تھے۔

اور اس طرح اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔