Wednesday, 17 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Masla Petrol Ka Nahi

Masla Petrol Ka Nahi

مسئلہ پٹرول کا نہیں ہے کہ وہ مہنگا ہو گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا بوجھ عوام کی کمر پر لاد دینے کے علاوہ کوئی متبادل حل ہے نہ کوئی ویژن۔

ہمارے ہاں معیشت کو سنبھالنے کے دو ہی رہنما اصول ہیں۔ اول:کہیں سے قرض لے لیا اور کچھ سال مزے سے گزار لیے۔ دوم: سر پر پڑ گئی تو ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کے ذریعے لوگوں کو نچوڑ لیا یا پھر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی مہنگی کر دی۔ حتی کہ درباریوں، خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کو بھاری معاوضوں پر پی ٹی وی میں نوازنے کے پیسے بھی غریب عوام کے بجلی کے بلوں سے نکال لیے جاتے ہیں۔ افسر شاہی کی مراعات اتنی خوفناک ہو چکی ہیں کہ ہمارے تصور سے بھی باہر ہیں۔ بندر بانٹ ایسی ہے کہ دنیا کے خزانے بھی اٹھا کر لائیں تو افسر شاہی کا پیٹ نہ بھرے۔ طاقت کا یہ عالم ہے کہ اپنی مراعات کی موناٹائزیشن تک نہیں ہونے دیتے۔

معیشت دو چیزوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ انڈسٹریلائزیشن ہو اور معاشی امکانات پیدا ہوں اور دوسرا یہ کہ مشکل وقت آن پڑے تو بوجھ برابر تقسیم کیا جائے۔ یہاں یہ صورت حال ہے کہ اندسٹریلائزیشن نہ ہونے کے برابر ہے اور زراعت کو ابھی تک انڈسٹری سمجھا ہی نہیں گیا۔ بوجھ ڈالنا مقصود ہو تو صرف عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ بات اب ہمیں شعوری طور پر سمجھنی ہے کہ اس معیشت کے ساتھ ہم اس افسر شاہی کے چونچلے نہیں اٹھا سکتے۔ اس کے بارے میں کچھ سوچنا ہو گا۔

افسر شاہی ہمیں کتنے میں پڑتی ہے جس دن اس کا درست اندازہ لگا لیا گیا یہ پٹرول کی کئی سالوں کی سبسڈی سے کئی گنا زیادہ نکلے گی۔ اس مال غنیمت کا کچھ احوال انہی کالموں میں بیان کیا جا چکا ہے، کچھ آپ چاہیں تو ذراسی محنت کر خود جان لیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کوئی رکن پارلیمان حکومت سے ایوان میں یہ سوال پوچھ لے کہ یہ ساری ا فسر شاہی ہمیں کتنے میں پڑتی ہے تو ہماری آنکھیں کھل ہی نہ جائیں، چندھیا بھی جائیں۔

معاشی امکانات ہمارے پاس بے بہا ہیں۔ صلاحیت اور ویژن کی کمی ہے۔ طویل المدت پالیسی کا بھاری پتھر کوئی اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ بہتر پالیسی کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگتا ہے۔ لیکن سیاست دان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پانچ سال بعد اگلا الیکشن لڑنا ہوتا ہے اور کچھ خبر نہیں ہوتی کہ یہ مرحلہ پانچ کی بجائے دو سال بعد ہی آ جائے۔ چنانچہ وہ لانگ ٹرم پالیسی کا متمل نہیں ہو سکتا۔ اسے فورا نتائج درکار ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اگلا الیکشن لڑسکے۔ اس اضطراری کیفیت نے ہمارے ہاں ڈھنگ کی کوئی پالیسی بننے ہی نہیں دی۔ یہاں تجربات ہی ہوتے رہتے ہیں۔ ملک اللہ کی نعمت تھا ہم نے تجربہ گاہ بنا دیا اور ہمارے یہ تجربے ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے۔

ملک طویل المدتی پالیسیوں سے بنتے ہیں۔ ایک سمت طے کر لی جائے اور پھر اس پر عمر کھپا دی جائے۔ اس کی ایک مثال ایٹمی صلاحیت ہے۔ وینٹی لیٹر ہم بنا نہیں سکے لیکن ایٹم بم بنا لیا۔ کیوں اور کیسے؟ اس لیے کہ ہم نے طے کر لیا یہ کام کرنا ہے اور پھر حکمران آتے رہے اور جاتے رہے۔ خاموشی سے ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرتا گیا۔ یہاں تک کہ منزل مل گئی۔ قوموں کی تعمیر کسی ایک ٹارزن کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ وہ آئے گا اور اس کے ویژن سے جون میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی۔ قوموں کی تعمیر ایسے ہی ہوتی ہے کہ بھٹو کے دور میں بنیاد رکھی جاتی ہے، ضیاء الحق سمیت لوگ آتے ہے اینٹ پر اینٹ رکھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ مئی کی 28 تاریخ کو چاغی میں وہ خواب سچ ہو جاتا ہے۔ یہ ٹیم ورک ہوتا ہے اور مسلسل ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ معیشت کی دنیا میں ہماری طویل المدتی پالیسی کیا ہے؟ کیا ہماری کوئی سمت ہے۔ کیا ہمیں کچھ معلوم ہے کہ ہم کرنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارا کوئی ہدف ہے کہ پانچ سال میں ہم نے یہاں پہنچنا ہے اور دس سال میں یہاں؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے توپھر آپ ہی بتائیے ملکی معیشت کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ پٹرول اور بجلی کو آخر آپ کتنا مہنگا کر لیں گے؟ ایک وقت آئے گا لوگوں کی ہمت جواب دے جائے گی۔ جیسے قرض دینے والوں کی جواب دے چکی ہے۔ اس وقت کیا ہو گا؟

یہاں ایک حکومت آتی ہے وہ نئی پالیسی لے کر آتی ہے۔ دوسری حکومت آتی ہے تو اس کے پاس بالکل ایک نئی پالیسی ہوتی ہے۔ پھر کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کون سی حکومت کب گھرچلی جائے۔ سیاسی استحکام یہاں آنے ہی نہیں دیا گیا۔ ایک تماشا سا لگا ہے۔ آنیاں ہیں اور جانیاں ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ اس غیر یقینی کے عالم میں کون احمق ہے جو یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ جب یہ ہی معلوم نہیں کہ جس حکومت کی پالیسی ہے خوووہ حکومت کب گھر چلی جائے، جب بیوروکریسی اور محکمے سرمایہ کار کی مدد کی بجائے اسے پھنسا کر اس سے مال پانی بٹورنے کے چکروں میں رہیں گے تو سرمایہ کاری یہاں کون کرے گا؟

ہمیں ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ سب مل بیٹھیں اور طے کر لیں کہ اگلے بیس سال کے لیے معیشت کی دنیا میں ہمارے یہ یہ اہداف ہیں اور ان اہداف کے حصول کی یہ پالیسی ہے۔ اب چاہے کتنی ہی حکومتیں آئیں اور جائیں اس پالیسی میں جوہری طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس سے سرمایہ کار کو بھی اعتماد ملے گا اور اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ اس کے پاس کس کس شعبے میں کیا کیا امکانات ہیں۔ وہ غیر یقینی کی کیفیت کا شکار ہوئے بغیر ان امکانات کے حصول میں جت جائے گا۔

ابھی موسم گرما ہے۔ دنیا کے حسین مقامات ہمارے پاس ہیں۔ اس موسم میں ہمارے ہاں سیاحت عروج پر ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے پاس سرے سے کوئی سیاحتی پالیسی ہی نہیں ہے۔ سیاحتی مقامات کوڑے اور غلاظت سے بھرے پڑے ہیں۔ سیف الملوک اور مہو ڈنڈ جھیل میں بچوں کے پیمپر تیر رہے ہوتے ہیں۔ جس کا جہاں جی چاہتا ہے غلیظ سا ہوٹل بنا لیتا ہے اور سیوریج سیدھا ندی میں پھینک دیتا ہے۔ اسلام آباد سے نکلیں تو خنجراب تک فیملیوں کے لیے سڑک پر ڈھنگ کا ایک ٹائلٹ تک نہیں ہے۔ سیاحت کے ساتھ ہمارے لیے کتنے غیر معمولی معاشی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں، کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا۔ بس ادارے بن جاتے ہیں اور ان میں بابو لوگ بیٹھ جاتے ہیں کہ کھائیں پیئیں اور مزے کریں۔

ملک میں انڈسٹری تو رہی نہیں۔ اب جس کے پاس چار پیسے آتے ہیں پلاٹ میں انویسٹ کر دیتا ہے۔ زرعی زمینوں کو ہائوسنگ کالونیاں کھاتی جا رہی ہیں۔ فراڈ الگ سے ہو رہے ہیں۔ شریف آدمی انوسٹ کر بیٹھتا ہے چند سال بعد جمع پونجی سے محروم ہو کر اسے معلوم ہوتاہے کہ انصاف کے حصول کے لیے اب اسے پوتوں کی درازی عمر کی دعا کرنا پڑ ے گی۔

یہ معاملات ایسے نہیں چلیں گے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی غیر سنجیدہ تکرار کی بجائے اہل سیاست کو سنجیدگی سے مل بیٹھنا ہو گا۔ ہمیں ایک متفقہ معاشی پالیسی چاہیے۔ ایک میثاق معیشت۔