Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kya Opposition Ke Pas Koi Mutabadil Muashi Mansooba Hai?

Kya Opposition Ke Pas Koi Mutabadil Muashi Mansooba Hai?

پی ڈی ایم نے مہنگائی کے عنوان کے تحت حکومت مخالف تحریک شروع کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی متبادل معاشی ایجنڈا موجود ہے یا وہ بھی حکومت کی طرح عوام کو صرف تقریریں اور خطاب سنانے تشریف لا رہی ہے؟ تقریریں بہت ہو چکیں۔ خطابات سن سن کر لوگوں کے اعصاب چٹخ گئے ہیں اور کان پک چکے۔ دفتر میں کوئی عمل ہے تو ازرہ کرم وہ پیش کیجیے ورنہ تقریریں تو وزیر اعظم بلا ناغہ فرما ہی رہے ہیں۔

ڈاکٹر اسراراحمد مرحوم، روایت ہے کہ، ایک بار مولانا امین احسن اصلاحی کو ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے گئے۔ اصلاحی صاحب نے پوچھا آپ یہ کانفرنس کیوں کروانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔ امین احسن اصلاحی صاحب نے یہ سن کر کہا کہ یہ نیک کام پاکستان ریلوے بہت عرصے سے انجام دے رہا ہے، آپ کیوں زحمت کر رہے ہیں۔

پی ڈی ایم کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مہنگائی کے خلاف تحریک اگر محض بھانت بھانت کے قائدین انقلاب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے تو اس مشقت کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ کام محکمہ ریلوے بہت عرصے سے کر رہاہے۔ ہاں اس کے پاس کوئی معاشی ویژن، کوئی منصوبہ، کوئی متبادل موجود ہے تو پھر بات اور ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ عمران حکومت کے خلاف بنیادی مقدمہ کیا ہے؟ مقدمہ یہ ہر گز نہیں کہ اس نے پاکستان کی روشن اور طاقتورمعیشت کو تاریکیوں میں ڈبو دیا۔ مقدمہ یہ ہے کہ وہ لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا نہیں دے سکا بلکہ دھکا ہی دے ڈالا۔ مقدمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے معاشی تباہی کی بنیادی بنیاد رکھی، مقدمہ یہ ہے کہ معاشی تباہی کے سفر کو روکنے کے اس کے سارے دعوے غلط ثابت ہوئے اور جب اسے موقع ملا تو اس کے پاس نہ کوئی متبادل تھا، نہ کوئی منصوبہ اور نہ ہی افرادی قوت۔ بائیس سال کی جدوجہد کا اس سے عبرت ناک انجام اور کیا ہو سکتا ہے کہ عمران کے پاس اپنی تربیت یافتہ ٹیم میں ایک بھی فرد ایسا نہیں جو معیشت کو دیکھ سکے۔ کبھی حفیظ شیخ کو لایا جاتا ہے تو کبھی شوکت ترین کو۔

اسی طرح حزب اختلاف کو محض اس لیے مسیحا قرار نہیں دیا جا سکتا کہ عمران حکومت میں مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عوام الناس کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی تباہی کے اس سفر میں سبھی نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ عمران حکومت کی ناکامیاں پہاڑ جیسی ہیں تو حزب اختلاف کی فرد جرم بھی ہمالیہ سے کم نہیں۔

عوام کو سب نے نظر انداز کیا اور ہمیشہ کیا۔ ریاست کے وسائل سے ایک محدود مقتدر اشرافیہ لطف اندوز ہوتی رہی اور ہر دور میں ہوتی رہی۔ غریب کا مختلف عنوانات کے تحت استحصال ہوا اور ہر دور میں ہوا۔ معاشی تباہی کے اس سفر میں کوئی ایسا نہیں جو سر اٹھا کر کہہ سکے کہ میرے دور کو استثناء حاصل ہے۔ نہ ن لیگ، نہ ہی پیپلز پارٹی اور نہ ہی آمریتوں کے دورانیے۔ عمران پر غصہ اس لیے نہیں ہے کہ اس نے ہنستی بستی معیشت برباد کی، غصہ اس لیے ہے کہ بتدریج برباد ہوتی معیشت کو سنبھالنے کے اس نے جو دعوے کیے تھے وہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے۔

معیشت انڈسٹری سے چلتی ہے۔ حزب اختلاف بتائے کہ اس نے ورثے میں کون سی انڈسٹری چھوڑی؟ ضیاء الحق، نواز شریف، مشرف اور زرداری صاحبان کے دور میں وہ کون سی صنعتیں لگیں جنہوں نے لوگوں کو روزگار اور قوم کو زرمبادلہ دینا تھا اور عمران نے آ کر سب تباہ کر دیا؟

بس یہی تھا کہ پہلے افغان جہاد تھا اور ڈالر آتے رہے، پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی اور ڈالر آنے لگے۔ قرض اور امداد ملتی رہی۔ ہماری معیشت کا دارومدار اسی بھیک اور مدد اور قرض پر تھا۔ اب نہ مدد آ رہی ہے نہ قرض مل رہا ہے۔ ان دو معاشی امکانات کے علاوہ حزب اختلاف کے پاس کوئی اور معاشی متبادل کبھی رہا ہو یا اب موجود ہو تو ذرا بتا دیجیے۔

عمران خان کی ٹیم نے تو اس معیشت کے ساتھ وہ کیا جو ایک بچہ اپنے کھلونے کے ساتھ کرتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حزب اختلاف کی معاشی پالیسیوں کا سہرا کہنا شروع کر دیا جائے اور انہیں معاشی نجات دہندہ بنا لیا جائے۔ قرض اور بیرونی امداد کے علاوہ اور پی پی کے دور حکومت میں کوئی تیسرا معاشی چشمہ بہتا تھا تو ذرا بتا دیجیے۔ یہی دو مالی سر چشمے تھے جو اب بدلتے حالات میں خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

سود کے قرض کا معاملہ بھی یہ ہے کہ بتدریج سنگین ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ نوبت تو نواز شریف صاحب کے دور میں آ گئی تھی کہ دفاع سے بھی زیادہ رقم ہم غیر ملکی قرض پر سودا ور قسطوں کی ادائیگی میں دیا کرتے تھے۔ سودی معیشت میں یہ لازم تھا کہ ہر آنے والے دن یہ توازن مزید بگڑتا چلا جائے۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے۔ عمران کی کمر پر تعزیر کا کوڑا صرف ان غلطیوں پر برسانا چاہیے جو اس نے کیں۔ ستر سال کی غلطیوں کا حساب اس سے مانگنا قرین انصاف نہیں۔

ستر سال ہم نے قرض اور امداد کھائی۔ اتنا بھاری قرض اور امداد ڈکار کر، سوال یہ ہے کہ ملک میں کتنی انڈسٹری لگی اور کتنے معاشی امکانات پیدا ہوئے؟ پھر یہ پیسہ آخر جاتا کہاں رہا؟ آج ہمارے اوپر اتنا قرض ہے کہ دفاع سے ز یادہ رقم ہمیں ہر سال قرض کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھنا پڑتی ہے تو یہ سوال پیدا ہونا تو فطری بات ہے کہ اتنا بھاری قرض کہاں خرچ کیا گیا؟ نہ ملک میں ڈھنگ کا انفرا سٹرکچر کھڑا ہوسکا نہ انڈسٹری لگ سکی، پیسہ کہاں گیا؟

حزب اختلاف مہنگائی کے لیے نکل رہی ہے تو اچھی بات ہے لیکن سوال وہی ہے کہ اس کے پاس متبادل کیا ہے؟ یہ احتجاجی تحریک محض ایک سیاسی ہتھکنڈا نہیں تو چند سوالات کے جوابات حزب اختلاف کو ساتھ لے کر نکلنا چاہیے۔

غیر ملکی قرض کیسے واپس ہو گا؟ سود ہر سال بڑھے گا، آج قرض پر سود اور قسطوں کی ادائیگی میں دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم جا رہی ہے۔ چند سال بعد یہ نوبت آئے گی کہ آدھے سے زیادہ بجٹ اس مد میں جائے گا پھر کیا ہو گا؟ کیا سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام آ سکتا ہے؟ کیا سب مل کر بیس پچیس سال کا معاشی ایجنڈا دے سکتے ہیں تا کہ سرمایہ دار کو معلوم ہو کہ حکومت بدلنے سے پالیسی نہیں بدلے گی اور وہ اعتماد سے سرمایہ کاری کر سکے؟ کیا وسائل کا رخ اشرافیہ کی بجائے عوام کی طرف موڑا جا سکتا ہے؟ قربانی کیا صرف عوام نے ہی دینی ہے یا ان طبقات نے بھی دینی ہے جو مغل شہزادوں جیسی زندگی گزارتے آئے ہیں۔

حزب اختلاف کے پاس اگر ان سوالات کا جواب اور متبادل موجود ہے تو جی آیاں نوں ورنہ ہم باز آئے محبت سے، اٹھا لو پاندان اپنا۔